ٹھہری ہوئی ٹرین
ٹھہری ہوئی ٹرین دنیا میں خوش قسمت اور خوش نصیب انسان وہ ہیں۔ جو چاہتے ہیں ان کا مستقبل ماضی کی طرح نہ ہو ۔ بعض لوگ ایسی ٹرین پر بیٹھے ہوتے ہیں جو ٹھہری ہوئی ہوتی ہے۔وہ جتنی دیر بھی بیٹھے رہیں، وہ کسی بھی منزل پر نہیں پہنچ سکتے۔ آپ اگر اپنا مستقبل بدلنا چاہتے ہیں تو اس ٹرین میں سوار ہونا پڑے گا جو چل رہی ہے۔ مسئلہ ہمیشہ کیلئے نہیں آتا، لیکن انسان کی نفسیات ایسی ہے کہ وہ سمجھتا تکلیف شاید ہمیشہ کیلئے وسعت پیدا کر تا ہے۔ چنانچہ انسان آگے بڑھتا ہے۔جاوید چوہدری کہتے ہیں، قدرت ہماری زندگی کی ڈش میں پانچ سو ہزار مسئلے رکھ دیتی ہے۔ ہم نے ان مسئلوں کو حل کرنا ہوتا ہے۔ جب آدمی انھیں حل کرتا ہے تو پھر قدرت ایک دن اس کے سامنے بڑا آزمائش رکھ دیتی ہے۔ وہ اس کو بھی حل کرلیتا ہے۔ پھر قدرت اسے ایسا انعام دیتی ہے وہ انعام یہ ہوتا ہے کہ ساری دنیا اس کو نیوٹن کے، آئنسٹائن کے نام سے اور حضرت امام غزالی کے نام سے جاننا شروع کردیتی ہے۔آپ یوں تو اپنی زندگی کے چھوٹے چھوٹے مسائل روزانہ ہی حل کرتے ہوں گے اور عشروں سے حل کرتے چلے آرہے ہوں گے، لیکن جس دن کوئی بڑا اور غیر معمولی مسئلہ حل کرڈالا، اس دن آپ کی زندگی بھی غیر معمولی ہونا شروع ہوجائے گی۔ اس اندهیر اتنا کہتے ہیں ہیں۔زندگی بھی غیر معمولی ہونا شروع ہوجائے گی۔ اس دن آپ کے روشن مستقبل کی جانب آپ کا سفر شروع ہوجائے گا۔ انسان کے پاس سب سے بڑی طاقت فوکس ہے۔ فوکس کیا ہوتا ہے؟ ہمارا فوکس اس طرح ہوتا ہے جس طرح فرض کیجیے، کمر ے میں اندیرا اور باتھ میں ٹارچ ہو. آپ کی ٹارچ کا رخ جس طرف ہوگا، آپ کا فوکس بھی اسی طرف ہوگا۔ چنانچہ ہمیں پوری دنیا میں وہی نظر آتا ہے جس پر ہم فوکس کرتے ہیں۔ بعض اوقات فوکس ہی عجیب و غریب ہوتا ہے کہ آدمی کہتا ہے کہ مجھے عجیب و غریب نظر آرہا ہے۔ باباجی اشفاق احمد نے اپنے استاد سے کہا کہ مکھی کی چھیاسی آنکھیں ہوتی ہیں
استاد نے جواب دیا ایسی مکھی پر لعنت ہے
جس کی چھیاسی آنکھیں ہوتے ہوئے پھر بھی وہ گندگی پر بیٹھتی ہے۔ زیادہ تر لوگوں کی نفسیات یہ ہوتی ہے کہ وہ مسائل تلاش کرتے رہتے ہیں۔ وہ وہاں فوکس کرتے ہیں جہاں فوکس کرنے کا کوئی حل نہیں ملتا۔ ہمیں مسلے حل کرنے کی طرف فوکس کرنا چاہیے۔جب بنده مسلے حل کرنے کی طرف فوکس کرتا ہے تو مسئلے کو حل کرنے کے نئے نئے طریقے سامنے آنے لگتے ہیں۔فوکس اس مجنوں کی طرح ہے جو ایک نمازی کے سامنے سے گزرتا ہے تو نمازی نماز توڑ کر اس کا
گریبان پکڑ لیتا ہے اور کہتا ہے کہ تم میری نماز کے آگے سے کیوں گزرے۔ مجنوں جواب دیتا ہے، میں تو لیلی کے پیچھے جا رہا تھا، مجھے تمہاری نماز کا تو پتا ہی نہیں چلا۔ لیکن مجھے حیرت ہو رہی ہے تمہاری نماز پر کہ عبادت کے دوران تم نے مجھے دیکھ لیا۔
0 Comments