کہتے ہیں محمود غزنوی کا دور تها
ایک شخص کی طبیعت بگڑ گئی تو حکیم کے پاس گیا اور کہا کہ مجھے دوائی بنا کے دو حکیم نے کہا کہ دوائی کے لیے جو چیزیں چاہیے ہیں وہ سب ہیں سواء ایک شہد کے تم اگر مجھے
شہد کہیں سے لا دے دو تو میں تمے دوائی تیار کر دیتا ہوں اتفاق سے موسم بھی شہد کا نہیں تھا
اس شخص نے حکیم سے وہ ڈببی پکڑی اور لوگوں کے دروازے پر جانے لگا
مگر ہر جگہ مایوسی ہوئی جب مسئلہ حل نہ ہوا تو محمود غزنوی کے دربار میں جا پوچا کہتے ہیں کہ وہاں ایاز نے دروازہ کھولا دستک دینے والے کی داستان سنی اور اس نے وہ چھوٹی سی ڈببی ایاز کو دی اور کہا کہ مجھے اس میں شہد چاہیے ایاز نے اس شحص سے کہا آپ تشریف رکھیے
میں بادشاه سے پوچھ کر بتاتا ہوں ایاز وہ ڈببی لے کر بادشاہ کے سامنے حاضر ہوا اور عرض کی کہ بادشاہ سلامت سائل کو شہد کی ضرورت ہے بادشاہ نے وہ ڈببی لی اور سائیڈ میں رکھ دی اور ایاز کو کہا کہ تین شہد کے ڈببے اٹھا کے اس کو دے دیے جائیں ایاز نے کہا حضور اس کو تو تھوڑی سی چاہیے تھی آپ ڈببے کیوں دے رہے ہیں بادشاه نے ایاز سے کہا ایاز وہ مزدور آدمی ہے اس نے اپنی حیثیت کے مطابق مانگا ہے اور ہم بادشاہ ہیں ہم اپنی حیثیت کے مطابق اس کو دینگے مولانا رومی فرماتے ہیں آپ اللہ پاک سے اپنی حیثیت کے مطابق مانگیں وہ اپنی شان کے مطابق عطا کریگا شرط یہ ہے کہ ہم اللہ سے مانگیں تو صحيح . وہ رب ہے ضرور عطا کرے گا ہمے اللہ سے مانتے رہنا چاہئے
آپ کو یہ سٹوری کیسی لگی اپنی قیمتی راے ضرور دیں اور اپنے دوستوں کے ساتھ شیر کریں شکریہ
0 Comments