Ad Code

ایک سوال aik sawal



ایک سوال


aik sawal



ملک بھر کے سرکاری ڈاکٹروںنے اپنے مطالبات منواںے کے لیے ہڑتال
کر رکھی تھی ایک بڑے سرکاری ہسپتال میں ڈاکٹر اور دیگر شعبوں
کے لوگ پلے کارڈ لیے کھڑے تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھ۔
ڈاکٹروں کی ںمائندہ تنظیم کے مرکزی صدر ڈاکٹر سروش سے ٹی وی
چینل کے ںمائندے ںے کہا:“ آپ کے مطالبات کی حد تک تو بات ٹھیک
ہے مگر کیا آپ کو یہ ںہیں احساس کہ اس طرح ہزاروں مریضوں کو
پریشاںی کا سامنا کرںا پڑ رہا ہے اںساںی جاںوں کا معاملہ ہے ہے ،
خداںخوستہ۔



۔۔”“ یہ بات ہمیں ںہیں سرکار کو سوچنی چاہیے یہ سوال ہم سے کرںے
کی بجائے اگر آپ کسی سرکاری ںمائندے سے کرتے تو اچھا ہوتا۔”
ڈاکٹر ںے اس سوال کا جواب اتنہائی خشک لہجے میں دیا اس طرح کا
سوال پوچھنا اںھیں اچھا ںہیں لگا تھا۔
ہسپتال کا مرکزی دروازہ زںجیر سے باںدھ کر تھوڑا سا کھال رکھا گیا تھا
اور آںے والے مریضوں کو گارڈ پیچھے دھکیل رہے تھے۔ ٹی وی چینل
کا ںمائندہ اس صور ِت حال کی تصویریں اور ویڈیو بناںے کے بعد گاڑی
میں سوار ہو کر چال گیا۔ ہسپتال مینہڑتال کا تیسرا روز تھا ڈاکٹروں ںے
کسی مریض کو ہاتھ ںہیں لگایا تھا، بلکہ ماتحت عملے کو بھی سختی
سے کام کرںے سے روک دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر سروش ںے آںےوالے مریضوں سے کہا:“ مطالبات پورے ہوںے
تک کسی مریض کو ںہیں دیکھا جائے گا۔”مریض فریاد کر رہے تھے کہ
ہمیں کس جرم کی سزا دی جا رہی ہے عالج ہمارا حق ہے ہمارا کوئی
قصور ہو تو بتائیں لیکن ان کی التجا سننے کو کوئی بھی تیار ںہ تھا۔
سلمان کو ہوش آیا تو اس ںے اپنے آپ کو بستر پر پایا اس کا داہنا پیر



ٹھ کر دیکھنے کی ک



کسی سخٹ چیز سے بندھا ہوا تھا اس ںے ا وشش کی ُ
تو اس کے منھ سے چیخ ںکل گئی ۔ اس کے پیر پر پالسٹر بندھا ہوا تھا۔
اس ںے سوچنا شروع کر دیا اسے یاد آیا کہ وہ بڑی شان سے موٹر
سائیکل کو لہرالہرا کر مصروف سڑک پر کرتب دکھا رہا تھا۔
اس دوران پیچھے ایک ںو جوان تیزی سے کار بھگاتا ہوا ال رہا تھا اس
ںے سلمان کی موٹر سائیکل سے آگے ںکلنے کی کوشش کی تو موٹر
سائیکل سڑک سے ا گئی۔ کار ُچھلتی ہوئی ںیچے کچے میں گھسٹتی چلی
روالے ںوجوان ںے اسے گرتے دیکھا تو کار کی رفتار بڑھا دی اور
ںظروں سے اوجھل ہو گیا ۔
راہ گیروں ںے یہ حادثہ ہوتے ہوئے دیکھا تو اس لیے وہ دوڑ کر گئے
تھوڑی ہی دیر میں ہجوم لگ گیا کسی ںے اپنے موبائل سے ایمبولنس
سروس کو اطالع کر دی تھی۔ کچھ ہی دی میں ایسے ایمبولنس مینلٹا دیا
گیا۔ سر اور بازو کی چوٹ کم تھی لیکن ٹاںگ شدید زخمی تھی ایک
مہربان شخص ایمبولنس میں اس کے ساتھ سوار ہو گیا وہ کئی سرکاری
ہسپتالوں میں گئے لیکن کسی ںے بھی توجہ ںہ دی۔
اس مہربان شخص ںے کچھ سوچ کر ڈرائیور کو ہدایت دی کہ آگے ایک
ںجی ہسپتال ہے زخمی کووہاں لے چلے۔ اسے علم تھا کہ کچھ پرائیوٹ
ہسپتال والے حادثاتی کسی بھی لے لیتے ہیں۔اس ںے مطلوبہ فیس بھی
جمع کر ادی اور سلمان کو داخل کر دیا۔ دماغی چوٹ ںے سلمان پرںیم
بے ہوشی طاری کر دی تھی۔
اس کی ٹاںگ کے ایکسرے کے بعد ڈاکٹروں ںے اس کی ٹاںگ پر پالسٹر
کر دیا تھا۔ اب اسے ہوش آیا تو اس ںے اپنا موبائل تالش کیا، لیکن شاید
ہو کہیں گرگیا تھا۔ سلمان ںے اس مہربان شخص کو فون ںمبر بتا کر اپنے
والد کو اطالع کرںے کے لیے کہا۔
آج چوتھے روز بھی ڈاکٹروں کے مطالبات پورے ںہیں ہو ئے تھے۔
تنظیم کے جنرل سیکرٹری ڈاکٹر ںعیم
کے موبائل فون پر کوئی کال موصول ہوئی تو وہ ادھر ا ر بات ُدھر ٹہل ک
ٹ
یہ “:سننے لگے۔ جب اںہوں ںے فون بند کیا تو ڈاکٹر سروش پکار ا ھے ُ



کال ضرور متعلقہ محکمے کی طرف سے ہوگی شاید وہ مان گئے
ہمارے مطالبات۔
۔۔”ڈاکٹر سروش خور ہو رہے تھے لیکن ڈاکٹر ںعیم کا چہرہ لٹک گیا تھا



ٹھ کر چلے گے۔ ان کا ُرخ اپ



وہ بغیر کچھ کہے سنے تیزی سے اُ



نی گاڑ ٰ
کی طرف تھا اںہوں ںے گیٹ کھولنے کے لیے گارڈ کو اشارہ کیا پچھلے
تین روز سے وہ گھر بھی ںہیں جا سکے تھے۔
گاڑی کا ُرخ ایک ںجی ہسپتال کی طرف تھا وہ دوڑ کر اپنے بیٹے سلمان
تک پہنچنا چاہتے تھے ان کی بیگم چار سال پہلے وفات پا چکی تھی اب
ان کا اکلوتا بیٹا ہی ان کی ا ر اپنے ُمیدوں کا مرکز تھا۔ وہ تو ہسپتال او
پرائیوٹ کلینک میں خاصے مصروف رہتے تھے اس لیے اسے ایک آیا
کی ںگراںی میں دے رکھا تھا جو اس کے کھاںے پینے اور دیگر ضرور
یات کا خیال رکھتی تھی دولت کی فراواںی ںے سلمان کو خود سر اور
ضدی بنا دیا تھا۔
کیسے ہو سلمان !” وہ اس سے لپٹ گے:“ میر ے بچے! مجھے تمہارا “
پتا ہی ںہیں چال سکا۔” اںہیں ںدامت محسوس ہو رہی تھی کہ اپنے
مطالبات کی منظوری کے لیے کس قدر سنجیدہ ہو گئے تھے کہ اںہوں
ںے اپنے گھر کو بھی ب بھال دیا تھا۔
آپ کا بے حد شکریہ!” اںہوں ںے اجنبی کا شکریہ ادا کیا اور خرچ شدہ “
رقم دینے لگے ، لیکن اس ںے لینے سے اںکار کر دیا۔“ہم سب سے پہلے
آپ ہی کے ہسپتال پہنچے تھے لیکن وہاں سے ہمیں دھکے دے کر ںکال
دیا گیا۔ دوسرے سرکاری ہسپتالوں ںے بھی ہم پر اپنے دورازے بند
رکھے آخر ہمیں یہاں آںا پڑا۔
اجنبی ںے پوری تفصیل بتائی:“ بروقت طبی امداد ںہ ملتی تو سلمان کو ”
ما میں چال جاتا اور پھر۔۔۔
”آپ مجھ سے بہتر سمجھتے ہیں۔
ڈاکٹر ںعیم اپنے ماتھے سے پسینا صاف کرںے لگے۔“ اس موقع پرمیرا
۔ سلمان ںے ںہایت معصومیت سے کہا: “ آپ لوگوں کا ”ایک سوال ہے



جھگڑا سرکار سے ہوتا ہے تو اس کی سزا بے چارے غریب مریضوں
کو کیوں دی جاتی ہے؟”۔
ان کے پاس اپنے بیٹے سلمان کے اس سنجیدہ سوال کا کوئی جواب ںہ
تھا۔ اںہوں ںے سرجھکا لیا اور ایک ان جاںے خوف سے لرز کر رہ گئے۔
ڈاکٹر ںعیم ںے وہیں سے ڈاکٹر سروش کو فون کیا جنہوں ںے ان کے
دالئل سن کر ہڑتال موخر کر دی۔

Post a Comment

0 Comments

Rawalpindi Studio Youtbe Channel

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();