Ad Code

صبر اور عمل میں فرقsabar or amal main kiya farq hai




صبر اور عمل میں فرقsabar or amal main kiya farq hai
کسی انسان کو صبر کی تلقین کرنا ہمارے لیے بہت آسان ہے ۔
اتنا آسان کہ ہم سوچتے بھئی صبر کرنا تو ایسا ہے جیسے چٹکی بجانے کا عمل بس چٹکی بجائی اور صبر آ گیا ۔
ہم یہ نہیں سمجھتے کہ ہم کسی کے غم یا مصیبت پہ اس کو صبر کی تلقین کر دیتے لیکن وہی مصیبت وہی غم جب ہم پہ آتا تو ہم کیوں صبر کا دامن ہاتھ سے چھوڑ دیتے ؟
ہم کیوں نہیں صبر کر سکتے ؟
وہی عمل جو کسی دوسرے کے لیے آسان لگتا ہمارے خود کے لیے مشکل کیوں ہو جاتا؟
صبر اس سیڑھی کا نام ہے کہ جس کا اختتام ہمیں اس سوہنے کے ان بندوں میں شامل کر دیتا کہ جن پہ وہ اپنا انعام کرتا ہے۔۔ اس کے بہت سے پہلوں ہیں۔ وہ ہم پہ چھوٹی چھوٹی مصیبتیں نازل کر کے ہمارے صبر کو آزماتا ہے اور اگر ہم اس کی آزمائش میں پورے نا اترے تو وہ ہمیں بے آسرا کر کے چھوڑ نہیں دیتا بلکہ زندگی کے چھوٹے چھوٹے امتحانوں سے ہمارے صبر کو مضبوط کرتا ہے۔۔۔۔
وہ سوہنا فرماتا ہے کہ میں کسی پہ اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا تو مطلب جو بھی مصیبتیں یا امتحان آتے وہ اتنے بھاری ہوتے کہ جن کا بار ہمارے نازک کندھے اور ہمارے جذبات برداشت کر سکیں۔
ابھی کل ایک بچے کی موت کی خبر نے مجھے ہلا کے رکھ دیا۔۔ وہ بچہ جیسے مرا وہ ایک الگ مسئلہ لیکن میں یہ سوچتی رہی کہ اس کی ماں کو صبر کرنے کا کہنا کس قدر مشکل عمل ہے اور کیا اس کو صبر آجائے گا؟ وہ عورت جو اس بچے کی ماں بھی ہے اس وقت نیم پاگل ہو چکی ہے کیا وہ اپنی اس حالت میں صبر کے معنی سمجھے گی۔۔؟
صبر مطمئن ہونے کا نام ہے تو کیا ہم مطمئن ہو جاتے اس کے ہر فیصلے پہ۔۔؟ ہم تو روتے پیٹتے گلے شکوے کرتے لیکن جب کچھ نہیں کر سکتے تب کہتے کہ ' اس کی مصلحت ' کیا اس مصلحت کو ہم صبر کا نام دے سکتے؟
ایک بات بتاؤں ہم بہت عام سے انسان ہیں۔۔۔ ہاں ہم عام انسانوں میں سے ہی کچھ اس کے خاص بندے بھی بنے لیکن اب سب ایک جیسے تو نہیں ناں۔۔۔ ہم جیسوں کو وقت کے ساتھ ساتھ صبر آتا ایک دم سے نہیں۔۔
تو کسی کو صبر کی تلقین ضرور کریں مگر صبر اس پہ مسلط مت کریں۔۔ اس کو ٹھوکریں کھا کے گر پڑ کے کسی بچے کے جیسے روتے سسکتے اس تک جانے دیں یقین جانے وہ صبر کرنا سکھا دے گا آپ کے یا میرے کہنے سے صبر نہیں آئے گا ۔۔۔
ہاں شاید غصہ آئے کہ ہم اس کے درد کو تکلیف کو اس شدت سے نہیں محسوس کر پا رہے جس میں وہ ہے تو یہاں وہ کچھ بولے گا ، لڑے گا ، سنائے گا تو دیکھا جائے تو اس کے اس ردعمل پہ صبر کرنا تو ہمارا بنتا ہے تو ہمیں خود کو تلقین کرنی چاہیے صبر کی۔۔
کہ کسی کی باتوں کو خندہ پیشانی سے سننا ، کسی کے الزام کو بس اس لیے چپ کر کے سہہ لینا کہ مزید لڑائی نا ہو ، صبر ہی ہے۔۔ اور سب سے بڑا صبر اس چیز کی قربانی ہے جس کے لیے آپ اپنی جان کی بازی بھی لگا دیتے ہو۔۔ اس کا نا ملنا یا مل کے چھن جانا ہی صبر ہے ۔۔۔
تو پہلے اس صبر سے خود گزرے خود سیکھیں اور پھر کسی کو تلقین کریں۔۔۔ جب ہم خود صبر کرنا سیکھ لیں گے تو یقین کریں اس کی تاسیر سے دوسروں کو واقف کروا پائے گے ورنہ ہمارے لیے صبر ایک لفظ کی مانند ہو گا جیسے دوسرے الفاظ کہ جن کو بولا ضرور جاتا پر ان کے معنی اور مفہوم سے واقفیت نا ہونے کے برابر ہوتی ہے۔۔۔۔۔
مانگنے پر کیا نہ دے گا طاقت صبر و سکون
جس نے بے مانگے عطا کر دی پریشانی مجھے
منظر لکھنوی
ازقلم
سیدہ صالبیہ حسن ذیدی
1جون 2023
x

Post a Comment

0 Comments

Rawalpindi Studio Youtbe Channel

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();