Ad Code

Dhokha Aur Wafa Deception and loyalty

Dhokha Aur Wafa

 میں ساتویں جماعت میں تھی، جب چچا جان کی شادی ہوئی۔ اس تقریب کے بعد دادا جان نے جائیداد کا بٹوارہ کرنے کا ارادہ کیا، لیکن بڑے بیٹے کا موجود ہونا لازمی تھا۔ ان دنوں تایا حیدر آباد میں تھے اور ہم سب ملتان میں تھے۔ تایا کو حیدر آباد سے بلوایا گیا لیکن وہ کسی ضروری کام کی وجہ سے نہیں آسکے۔ تب دادا جان نے فیصلہ کیا کہ ہم سب حیدر آباد چلتے ہیں اور وہاں کی زمینوں کا بٹوارہ کر دیتے ہیں۔ یوں ہم سب تایا ابو کے پاس چلے گئے۔

I was in the seventh grade when my uncle got married. After the ceremony, my grandfather planned to divide the property, but the presence of the eldest son was mandatory. At that time, my uncle was in Hyderabad and we were all in Multan. My uncle was called from Hyderabad, but he could not come due to some urgent work. Then my grandfather decided that we should all go to Hyderabad and divide the lands there. So we all went to my uncle's house.

بٹوارے کے لیے سب اکٹھے ہو گئے، تو تایا ابو کہنے لگے: ملتان والی زمینوں کا تم لوگ آپس میں بٹوارہ کر لو، لیکن حیدر آباد والی زمین کا اصل حق دار میں ہوں، کیونکہ گزشتہ بیس سال سے میں ہی ان کو سنبھال رہا ہوں۔اس پر دادا جان نے کہا: حیدر آباد والی زمین مالیت کے حساب سے زیادہ ہے اور تم تینوں بھائی میرے لیے برابر ہو۔ میں برابر بٹوارہ کروں گا۔

When everyone gathered for the division, Uncle Abu said: "You people divide the lands in Multan among yourselves, but I am the real owner of the land in Hyderabad, because I have been taking care of it for the past twenty years." Grandfather said: "The land in Hyderabad is more valuable and you three brothers are equal to me. I will divide it equally."

خیر، بٹوارہ تو ہو گیا، لیکن کچھ تلخیاں باقی رہ گئیں۔ ظاہر ہے تایا اس بات پر بہت ناخوش تھے۔ انہوں نے کہا کہ تم لوگوں نے میرا حق نہیں دیا۔ آج کے بعد تم لوگوں سے تعلق ختم ہے۔ حالانکہ دادا جان سے ان کی کوئی ناراضی نہ تھی، کیونکہ انہوں نے انصاف کے تقاضے پورے کیے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ وہ ہر سال ہماری زمینوں کا نفع دیں گے، لیکن دو سال گزرنے پر بھی انہوں نے ہمیں کوئی معاوضہ نہیں دیا۔ لہٰذا ابو نے فیصلہ کیا کہ حیدر آباد والی زمین وہ خود سنبھالیں گے اور اب وہیں رہیں گے۔ یوں ہم نے ملتان کو خیر باد کہہ کر حیدر آباد میں تایا کے قریب ہی گھر لے لیا۔

Well, the division was done, but some bitterness remained. Obviously, my aunt was very unhappy about this. She said that you people did not give me my right. After today, my relationship with you people is over. Although she had no resentment towards my grandfather, because he had fulfilled the requirements of justice. It was decided that he would give us the profit of our lands every year, but even after two years, he did not pay us any compensation. So, my father decided that he would take over the land in Hyderabad himself and would stay there from now on. Thus, we said goodbye to Multan and took a house near my aunt in Hyderabad.

زمین کاشت کرنے کے ساتھ ساتھ ابو نے کاروبار بھی شروع کر دیا۔ ان دنوں میں آٹھویں اور تایا کا بیٹا انصر نویں جماعت کا طالب علم تھا۔ ابو اور تایا جان کی ناراضی برقرار تھی، البتہ ہم بہن بھائی ان کے گھر جاتے تھے، لیکن وہاں سے صرف انصر ہمارے گھر آتا تھا۔ اس کا دل ہم سب سے لگ گیا۔ وہ ایک خوبصورت اور خوب سیرت انسان تھا۔ وہ آتا تو سب ہی اس کے ساتھ پیار و محبت سے پیش آتے اور کافی دیر تک باتیں کرتے رہتے۔ رفتہ رفتہ وہ مجھ سے زیادہ مخاطب ہونے لگا، جس پر پتا نہیں کیوں، میرے بھائی چڑ کھانے لگے اور اس سے دور دور رہنے لگے۔ وہ مجھ سے عمر میں ایک سال بڑا تھا۔ اس کا روز آنا، محبت سے ملنا اور باتیں کرنا مجھے اچھا لگنے لگا۔ امی بھی اس کی خاطر مدارات کا کہتیں اور ہم حتی المقدور اس کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑتے۔

Along with cultivating the land, Abu also started a business. In those days, I was a student of the eighth grade and my uncle's son Ansar was a student of the ninth grade. Abu and uncle were still angry, although we siblings used to go to their house, but from there only Ansar would come to our house. He was dear to all of us. He was a beautiful and well-mannered person. When he came, everyone would treat him with love and affection and would talk to him for a long time. Gradually, he started talking to me more, which I don't know why, my brothers started getting annoyed and kept a distance from him. He was a year older than me. I started liking his daily visits, meeting him lovingly and talking to him. My mother also used to say goodbye to him and we would spare no effort in extending him hospitality as much as possible.

پہلے تو یہاں میرا دل نہیں لگا، پھر انصر کی وجہ سے یہ شہر مجھے اپنا سا لگنے لگا اور دل ہی دل میں، میں اسے چاہنے لگی، مگر میں اپنے دلی جذبات ظاہر کرنے کی ماہر نہیں تھی۔ ایک دن وہ ہمارے گھر بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے واشنگ مشین لگائی تو اتفاقاً اس میں کرنٹ آیا۔ مجھے کرنٹ لگا تو زور سے چیخ نکل گئی۔ تب اس نے اپنی جان پر کھیل کر میری جان بچا لی۔ اس واقعے نے میرے دل میں اس کا مقام اور اونچا کر دیا۔ اس نے بھی ایک روز مجھ سے اپنے دلی جذبات کا اظہار کر دیا۔ پہلے تو میں چپ سنتی رہی، پھر منہ موڑ کر چلی گئی۔

At first, I didn't like it here, then because of Ansar, this city started to feel like my own and in my heart, I started to love him, but I wasn't an expert in expressing my heartfelt feelings. One day, he was sitting in our house. When I turned on the washing machine, it accidentally got electrocuted. When I got electrocuted, I screamed loudly. Then he risked his life to save mine. This incident made his place in my heart even higher. One day, he also expressed his heartfelt feelings to me. At first, I kept quiet, then turned my face and left.

اب وہ روز آنے لگا۔ ایک دن اس نے کہا: ہمارے والدین کے درمیان زمین کی وجہ سے ناراضی ہے، اگر ہمارا آپس میں رشتہ ہو جائے، تو یہ ناراضی ختم ہو سکتی ہے۔ میں نے اس کی اس تجویز کا کوئی جواب نہ دیا۔ ظاہر ہے، میرے بس میں تو کچھ نہیں تھا۔ ایک دن اس نے میری کتاب اٹھالی، کچھ دیر کی ورق گردانی کے بعد کتاب واپس رکھی اور چلا گیا۔ میں نے کتاب کھولی، تو اس میں ایک خط رکھا ہوا تھا۔ لکھا تھا تمہیں میں نے ایک تجویز دی تھی، تم نے جواب نہیں دیا۔ کیا میری تجویز پسند نہیں آئی یا تم اس سے اتفاق نہیں کرتیں؟ خدا کے لیے کچھ تو جواب دو، کزن انصر۔میں نے اسی وقت ایک پرچہ لیا اور اس پر تحریر لکھی قابل احترام کزن انصر، لڑکی کی عزت نازک شے ہے۔ اس کے دامن پر ذرا سا بھی داغ نہیں لگنا چاہیے، ورنہ لوگ اسے پاک دامن نہیں کہتے۔ پھر لڑکیاں والدین کے حکم کی محتاج ہوتی ہیں۔ جس طرح ماں باپ کہیں، ان کا ہر حکم ماننا پڑتا ہے۔ ویسے تم مجھے اپنے گھر والوں میں سب سے زیادہ اچھے لگتے ہو۔

Now that day began to come. One day he said: There is resentment between our parents because of the land, if we become related to each other, then this resentment can end. I did not respond to his suggestion. Obviously, there was nothing I could do. One day he picked up my book, after turning the pages for a while, he put the book back and left. I opened the book, and there was a letter in it. It was written that I had given you a suggestion, you did not respond. Did you not like my suggestion or do you not agree with it? For God's sake, give me an answer, cousin Ansar. I immediately took a piece of paper and wrote on it: Respected cousin Ansar, a girl's honor is a delicate thing. There should not be even the slightest stain on her skirt, otherwise people will not call her chaste. Then girls are in need of the orders of their parents. Whatever their parents say, they have to obey their every order. By the way, you seem to me the best among my family.

یہ خط میں نے اسے دے دیا۔ اس نے پڑھا تو اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نظر آنے لگے۔ تب میں نے کہا: ڈیئر کزن! ویسے تو ہمارا ملن بہت مشکل ہے، کیونکہ ہمارے والدین میں ناراضی برقرار ہے لیکن پھر بھی میں تمہارے ساتھ ہوں۔ اگر قسمت نے ساتھ دیا تو اس رشتے کو ضرور نبھاؤں گی۔ ان الفاظ نے اس میں ایک نئی امنگ پیدا کر دی۔ اسے لگا، جیسے وہ مجھے حاصل کر لے گا، لیکن خدا کو کچھ اور ہی منظور تھا۔

I gave him this letter. When he read it, signs of worry began to appear on his face. Then I said: Dear cousin! By the way, our meeting is very difficult, because our parents are still angry, but still I am with you. If fate supports me, I will definitely maintain this relationship. These words created a new desire in him. He felt as if he would get me, but God had something else in mind.

اس بات کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ ہماری چاہت کو کسی کی نظر لگ گئی۔ اس نے کچھ لکھ کر میری کتاب میں رکھا ہی تھا کہ میرے بھائی نے کتاب اٹھائی۔ کھول کر دیکھا تو اس میں خط تھا۔ بھائی نے خط پڑھا اور لے جا کر ابو کو دے دیا۔ ابو نے مجھے بلایا اور پوچھا: “کیا یہ تحریر انصر نے لکھی ہے؟ میں نے اقرار کیا۔ انکار کی گنجائش ہی کب تھی۔ تب ابو غصے میں آگئے۔ پہلے تو مجھے برا بھلا کہتے رہے کہ مجھے تم سے ایسی امید نہ تھی، پھر خط تایا کو بھجوا دیا۔ تایا ابو نے انصر کو بہت ڈانٹا کہ تم چچا کی بیٹی سے عشق لڑا رہے ہو۔ جانتے ہو کہ انہوں نے میرے خون پسینے سے آباد زمین چھین لی اور اب میرے گھر کے سامنے ہی گھر لے کر میرے سینے پر مونگ دلنے آ بیٹھے ہیں۔ تم ان کی بیٹی سے شادی کرو گے؟ اس سے بہتر ہے کہ تم مجھے گولی مار دو۔ وہ میرا بھائی نہیں، غاصب ہے، دشمن ہے اور اب تم بھی ویسے ہی ہو۔ لہٰذا یہاں سے دفع ہو جاؤ۔ یہ کہہ کر تایا نے انصر کو گھر سے نکال دیا۔

It had only been a few days since our love was noticed by someone. He had just written something and put it in my book when my brother picked up the book. He opened it and saw a letter in it. My brother read the letter and took it to Abu. Abu called me and asked: “Did Ansar write this?” I confessed. When was there any room for denial? Then Abu got angry. At first he kept on scolding me that I did not have such expectations from you, then he sent the letter to my uncle. Uncle Abu scolded Ansar a lot that you are making love to your uncle’s daughter. Do you know that they have snatched the land built with my blood and sweat and now they have come to give me peanuts by building a house in front of my house. Will you marry his daughter? It is better that you shoot me. He is not my brother, he is a usurper, an enemy and now you are the same. So get out of here. Saying this, my uncle threw Ansar out of the house.

انصر گھر سے نکل کر ملتان آ گیا، مگر ڈر کی وجہ سے دادا اور چچا کی طرف نہیں گیا بلکہ ہوٹلوں میں رہتا رہا۔ میرے بھائیوں کو معلوم تھا کہ تایا نے اسے نکال دیا ہے، لیکن انہوں نے کسی کو نہیں بتایا۔ دوسرے شہر میں اکیلے لڑکے پر بہت سی مصیبتیں آسکتی ہیں۔ ایک بار پولیس والوں نے اسے آوارہ گردی کے الزام میں پکڑ لیا۔ جو رقم اس کے پاس تھی، چھین لی، پھر چھوڑ دیا۔ اب رقم کے بغیر اس کا وہاں رہنا مشکل ہو گیا، تب اس نے سوچا کہ کسی دوست سے مدد مانگنی چاہیے۔ فون پر اس نے کسی دوست کو کہا کہ میں تمہارے پاس لاہور آرہا تھا کہ راستے میں جیب کٹ گئی، تو اب تم ہی مہربانی کر کے ملتان آجاؤ اور مجھے لے جاؤ، میں فلاں ہوٹل میں ہوں اور میرے پاس ہوٹل کا بل ادا کرنے کے لیے رقم بھی نہیں ہے۔ پہلے تو دوست نے ہاں کہہ دی، پھر سوچا کہ انصر اپنے دادا کے پاس کیوں نہیں گیا؟ اس کے دادا اور چچا تو وہیں رہتے ہیں۔ اقبال کے پاس دادا جان کا نمبر تھا۔ اس نے ان کو فون کر دیا کہ انصر ملتان میں فلاں ہوٹل میں مصیبت میں ہے، اسے وہاں سے لے جائیے۔ میں لاہور سے نہیں آسکتا، کیونکہ میرے امتحانات ہو رہے ہیں۔

Ansar left home and came to Multan, but due to fear, he did not go to his grandfather and uncle, but stayed in hotels. My brothers knew that his aunt had thrown him out, but they did not tell anyone. A boy alone in another city can face many troubles. Once the police arrested him on charges of vagrancy. They took away the money he had, then left him. Now it became difficult for him to live there without money, so he thought he should ask a friend for help. On the phone, he told a friend that I was coming to you in Lahore, but my pocket got cut on the way, so now you please come to Multan and take me, I am in such and such a hotel and I do not even have money to pay the hotel bill. At first, the friend said yes, then he thought why didn't Ansar go to his grandfather? His grandfather and uncle live there. Iqbal had grandfather's number. He called him and said that Ansar is in trouble in such and such a hotel in Multan, take him from there. I can't come from Lahore because I have exams.

انصر اپنے دوست کا منتظر تھا کہ چچا وہاں پہنچ گئے اور کہا۔ چلو میرے ساتھ گھر۔ پہلے تو اس نے انکار کیا، مگر پھر ان کے اصرار پر جانا پڑا۔ چچا جان کہہ رہے تھے کہ تمہارے دوست نے اطلاع دی تھی کہ تم یہاں ہو اور تمہاری جیب کٹ گئی ہے اور تمہارے والد صاحب نے بھی تمہارے دادا کو فون کر کے بتایا ہے کہ تم گھر سے بغیر بتائے آگئے ہو۔ بیٹا! ایسے حالات میں کم از کم ہمیں آزما لیتے ۔ دادا جان اور چچا کو اصل معاملے کا ابھی تک علم نہیں تھا۔ انہوں نے تایا کو اطلاع کی کہ فکر مند نہ ہونا، یہ ہمارے پاس آ گیا ہے۔

Ansar was waiting for his friend when his uncle reached there and said, "Come home with me." At first he refused, but then he insisted. Uncle was saying that your friend had informed you that you were here and that your pocket had been cut and your father had also called your grandfather and told him that you had come from home without informing him. Son! In such a situation, at least we would have been tested. Grandfather and uncle were not yet aware of the real matter. They informed Aunty that don't worry, it has reached us.

چار دن بعد تائی کا فون آیا کہ انصر کو جلد روانہ کر دیں ، اس کے ابو کی طبیعت سخت خراب ہے۔ دادا جان نے پوتے کو روانہ کر دیا۔ تایا کی طبیعت کچھ خراب تھی، انہوں نے بیٹے کو سمجھایا کہ تمہاری شادی نازیہ سے نہیں ہو سکتی کیونکہ میں نے تمہارے چچا سے کہا تھا کہ میرا تم لوگوں سے زندگی بھر کا تعلق ختم ہے، تو اب ہم آپس میں رشتے کیسے کر سکتے ہیں۔ لہذا تم ہمیشہ کے لیے نازیہ کو بھولو اور آگے پڑھنے کی تیاری کرو۔ انصر نے آگے پڑھنے سے انکار کر دیا تو باپ نے کہا۔ بیٹا! میرا تو کام سمجھانا تھا، آگے تمہاری مرضی ہے۔ مجھے اس بات کا بہت دکھ ہوا کہ بڑے بھائی نے صرف جائیداد کی خاطر زندگی بھر کے لیے رشتہ توڑ دیا-

Four days later, Tai called to send Ansar away quickly, his father's health was very bad. Grandfather sent his grandson away. Tai's health was a bit bad, he explained to his son that you cannot marry Nazia because I had told your uncle that my lifelong relationship with you is over, so how can we have a relationship now. So you should forget Nazia forever and prepare to study further. Ansar refused to study further, so his father said. Son! My job was to explain, from now on it is up to you. I was very sad that the elder brother broke off the relationship for the rest of his life just for the sake of property.

یوں ہی دن گزر گئے، انصر ہمارے گھر نہیں آیا۔ اس نے سوچا کہ نازیہ سے ملنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے، اگر میں اس کے کالج میں داخلہ لے لوں تو اس سے مل سکوں گا۔ یوں اُس نے میرے کالج میں داخلہ لے لیا۔ جب میں نے اسے پہلے دن کالج میں دیکھا تو اپنے تمام دکھ اور تکلیفیں بھول گئی۔ اس کی جدائی میں گزرے ہوئے لمحات یاد آئے تو آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ ہمارے کالج میں آ گیا ہے اور اب میں اسے روز مل سکوں گی۔ میں کھڑی اسے دیکھتی رہی۔ کچھ دیر انتظار کے بعد وہ خود ہی میرے پاس آ گیا اور پوچھا۔ کیا مجھ سے ناراض ہو؟ میں نے کہا۔ نہیں تو، تم نے بھلا ایسا کیوں سوچا؟ میرا یہ کہنا تھا کہ اس کا مرجھایا ہوا چہرہ کھل اٹھا، تب مجھے یوں لگا جیسےیہ اس کی زندگی کا حسین ترین لمحہ ہو۔ تم کہاں چلے گئے تھے؟ میں تمہارے لیے بہت پریشان تھی۔ میں کہیں بھی چلا جائوں، تمہیں اس سے کیا؟ وہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا۔ میں نے کہا۔ تمہاری غلطی کی وجہ سے ہمارے درمیان دوری آئی، کیا تمہیں اس کا احساس ہے؟ یہ سن کر اس کی آنکھیں بھر آئیں اور میں کچھ کہے بغیر وہاں سے چلی آئی۔ دوسرے دن جب اس نے مجھے اکیلے بیٹھے دیکھا، وہ میرے پاس آگیا۔ کیا ابھی تک خفا ہو، آخر بات کیوں نہیں کرتیں؟ میں نے وضاحت کی۔ انصر، میں بہت مجبور ہوں۔ تمہارا خط پڑھنے کے بعد بھائی نے مجھے بہت مارا تھا۔ ابو بھی خفا ہیں۔ بتائو میں کیا کروں؟ چلو ہمارا پھر بھی نقصان کم ہوا کہ خدا نے ہمیں کالج میں اکٹھا کر دیا۔ سال بھر ہم کالج میں ملتے رہے اور یہ سال ایک حسین خواب کی طرح پلک جھپکتے گزر گیا۔ جانے کیوں چاہنے والوں کے سروں پر ہمیشہ جدائی کے سائے منڈلاتے ہی رہتے ہیں۔ ایف ایس سی کے بعد ابو اور بھائیوں کو پتا چل گیا کہ انصر بھی میرے کالج میں پڑھتا ہے، تو انہوں نے مجھے کالج سے اٹھا لیا۔ اس کے بعد انصر نے مجھ سے ملنے کی بہت کوشش کی، مجھے خط لکھے، لیکن میں نے والد اور بھائیوں کے ڈر سے جواب نہ دیا، البتہ زبانی ایک کلاس فیلو کے ذریعے اسے پیغام بھیجوایا کہ خدارا مجھے خط مت لکھا کرو، کیونکہ اگر کسی کو پتا چل گیا تو قیامت آجائے گی۔ یوں ہمارا رابطہ بحال ہو کر بھی ختم ہو گیا-

Days passed like this, Ansar did not come to our house. He thought that there was only one way to meet Nazia, if I get admission in his college, then I will be able to meet him. So he got admission in my college. When I saw him in college on the first day, I forgot all my sorrows and pains. Tears filled my eyes when I remembered the moments spent in his separation. I could not believe that he had come to our college and now I would be able to meet him every day. I stood there watching him. After waiting for some time, he himself came to me and asked. Are you angry with me? I said. No, why did you think so? I meant that his withered face brightened, then I felt as if this was the most beautiful moment of his life. Where had you gone? I was very worried about you. What would happen to you if I went anywhere? He could not control his emotions. I said. Because of your mistake, there was a distance between us, do you realize it? Hearing this, his eyes filled with tears and I left without saying anything. The next day, when he saw me sitting alone, he came to me. Are you still angry, why don't you talk? I explained. Ansar, I am very compelled. After reading your letter, my brother beat me a lot. Abu is also angry. Tell me what should I do? Come on, our loss has been reduced again because God brought us together in college. We kept meeting in college for a year and this year passed like a beautiful dream in the blink of an eye. Who knows why the shadows of separation always hover over the heads of lovers. After FSC, Abu and his brothers came to know that Ansar also studies in my college, so they picked me up from college. After that, Ansar tried a lot to meet me, wrote me letters, but I did not reply out of fear of my father and brothers, however, I sent him a message verbally through a classmate that for God's sake, do not write me letters, because if anyone finds out, the Day of Judgment will come. Thus our contact was restored and ended...

یہ جدائی گرچہ میرے لیے کسی عذاب سے کم نہ تھی۔ دل اُسے دیکھنے کو ترستا تھا، لیکن قسمت میں شاید اس سے دوری لکھی تھی۔ ایک دن ابو نے فیصلہ سنا یا کہ اب ہم واپس ملتان میں رہیں گے۔ انہوں نے زمین کسی کے حوالے کردی تھی۔ انصر کو بھی اس فیصلے کا علم ہو گیا تھا۔ آخری دنوں میں میں نے کئی بار اُسے اپنے گھر کے سامنے کھڑے دیکھا، وہ ہمیں رخصت کرنے بھی آیا، لیکن بس ہمیں دور سے جاتے دیکھتا رہا، الوداع کہنے کی توفیق نہیں ہوئی۔

This separation was no less than a torment for me. My heart yearned to see him, but perhaps fate had written distance from him. One day, Abu heard the decision that now we would return to Multan. He had handed over the land to someone. Ansar also came to know about this decision. In the last few days, I saw him standing in front of his house many times. He even came to see us off, but he just watched us go from a distance, he did not have the opportunity to say goodbye.

میں نے اسے بھلانے کی کوشش کی ، مگر نہ بھلا سکی۔ یوں ہی وقت گزرتا رہا۔ جب چچا کے بیٹے کا عقیقہ تھا، دادا جان نے تایا کو بھی بلایا، مگر کوئی نہیں آیا، انصر آیا بھی تو ابو نے اسے گھر رکنے سے منع کر دیا۔ وہ آدھا دن چچا کے گھر گزار کر اپنے دوست کے گھر چلا گیا۔ اس دوران میں اس سے مل سکی اور نہ بات کر سکی، البتہ دور سے دیکھا ضرور تھا۔ یہی ہماری آخری ملاقات تھی۔ اس کے بعد ابو نے اپنے دوست کے بیٹے سے میرا رشتہ طے کر دیا۔ میرے سسر کافی امیر آدمی اور زمین دار تھے۔ ان کا بیٹا صرف ایف اے پاس تھا، کوئی کام نہیں کرتا تھا ، کیونکہ اللہ نے بہت دے رکھا تھا۔ ان کو کام کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ جب میری فاران سے شادی ہو رہی تھی، لگتا تھا جیسے کوئی کنویں میں دھکا دے رہا ہے، کیونکہ مجھے انصر بہت یاد آرہا تھا۔ میں اسے یاد کر کے اتنا روئی کہ میرا سارا میک آپ ڈھل گیا تھا۔ مجھے اس کی باتیں یاد آنے لگیں، کیا وہ اب کبھی نہ آئے گا؟ جو مجھ سے ملنے کی آرزو میں ملتان آجاتا تھا، وہ ملے بغیر واپس چلا گیا-

I tried to forget him, but I couldn't. Time passed like this. When my uncle's son had his aqiqah, my grandfather also called my aunt, but no one came. Even though Ansar came, my father forbade him from staying at home. He spent half a day at my uncle's house and went to his friend's house. During this time, I couldn't meet him or talk to him, but I must have seen him from afar. This was our last meeting. After that, my father arranged my relationship with his friend's son. My father-in-law was a very rich man and a landowner. His son only had an FA, he didn't do any work, because Allah had given him so much. He didn't need to work. When I was getting married to Faran, it felt like someone was pushing me into a well, because I missed Ansar so much. I cried so much remembering him that all my makeup was washed away. I started remembering his words, will he ever come again? Those who came to Multan with the desire to meet me, returned without meeting me.

میری شادی کے دو سال بعد میری پھپھو کی بیٹی کی شادی تھی۔ تایا کو بھی دادا جان نے بلوا بھیجا، لیکن صرف انصر ہی آیا ۔ وہ دادا جان کے گھر ٹھہرا ہوا تھا۔ مجھے اطلاع ملی کہ انصر آ گیا ہے تو جی چاہا کہ ابھی اڑ کر چلی جائو، مگر نہیں گئی۔ مجبور تھی، پائوں میں بیڑیاں پڑ چکی تھیں، اخلاقی طور پر میں اُن کی پابند تھی ۔ شادی میں کہیں نہ کہیں جھلک ضرور نظر آجاتی تھی، مگر اس سے بات کرنے کا حوصلہ کس میں تھا۔ اگر بات کرتی تو مجرم قرار دی جاتی۔ اب میں کسی کی بیوی تھی .

Two years after my marriage, my uncle's daughter got married. My grandfather also invited my aunt, but only Ansar came. He was staying at my grandfather's house. When I got the news that Ansar had come, I wanted to fly away right away, but I didn't. I was forced, my feet were shackled, I was morally bound to him. There was definitely a glimpse of marriage somewhere, but who had the courage to talk to him. If I had talked, I would have been declared a criminal. Now I was someone's wife.

اس کے بعد وہ مسئلہ شروع ہوا، جس نے میری زندگی تباہ کردی۔ خدا جانے کیونکر میرے شوہر کے دھیان میں یہ بات آئی کہ مجھے جائیداد سے حصہ ملنا چاہیے۔ وہ مجھے مجبور کرنے لگے کہ جاکر اپنے باپ سے حصہ لائو۔ والد صاحب کسی صورت حصہ نہیں دینے والے تھے کیونکہ ہمارے خاندان میں بیٹیوں کو جائیداد میں حصہ نہیں دیا جاتا تھا، بہنیں اپنے حصے بھائیوں کے حق میں چھوڑ دیتی ہیں، البتہ ان کو جہیز کافی دیا جاتا ہے اور دکھ سکھ ہو تو لڑکی کا ساتھ اس کے بھائی اور والد کو لازمی دینا ہوتا ہے، چاہے ان کی ساری زمین اور جائیداد کیوں نہ بک جائے، وہ اپنی بیٹی کو تنہا کبھی نہیں چھوڑتے۔ جب فاران نے بہت مجبور کیا، تو میں والد کے پاس آئی –

After that, the problem started, which destroyed my life. God knows how my husband came to know that I should get a share of the property. He started forcing me to go and get a share from my father. My father was not going to give me a share under any circumstances because in our family, daughters were not given a share in the property, sisters leave their share in favor of their brothers, however, they are given a sufficient dowry and in good times and bad, the girl has to be supported by her brother and father, even if all their land and property is sold, they never leave their daughter alone. When Faran forced me a lot, I came to my father –

والد صاحب نے میری بات تحمل سے سنی اور کہا، بیٹی، یہ ہمارے خاندان کا اصول ہے کہ بیٹیاں اپنی مرضی سے اپنے حصے بھائیوں کو دے دیتی ہیں۔ ہم نے تمہیں جہیز میں سب کچھ دیا اور ہمیشہ تمہارے دکھ سکھ میں تمہارے ساتھ کھڑے رہے۔ لیکن اگر تمہارے شوہر کو لگتا ہے کہ تمہیں جائیداد کا حصہ چاہیے، تو میں تمہیں یہ حق دے سکتا ہوں، مگر اس کا فیصلہ تمہیں کرنا ہوگا۔

Father listened to me patiently and said, "Daughter, it is the rule of our family that daughters give their share to their brothers of their own free will. We have given you everything in dowry and have always stood by you in your joys and sorrows. But if your husband feels that you want a share of the property, then I can give you that right, but it is up to you to decide."

یہ بات میرے لیے بہت مشکل تھی۔ میں نے فاران کو سمجھانے کی کوشش کی کہ میرے والد اور بھائی ہمیشہ میرے ساتھ ہیں اور مجھے جائیداد کے حصے کی کوئی ضرورت نہیں، لیکن وہ اپنی ضد پر قائم رہے۔ ان کے مسلسل رویے نے ہماری زندگی میں دراڑ ڈال دی۔ ان کے دل میں شک پیدا ہو گیا کہ شاید میں اپنے خاندان کے لیے ان کی اہمیت کم کر رہی ہوں۔

This was very difficult for me. I tried to explain to Faran that my father and brother were always with me and that I did not need any share of the property, but he remained adamant. His persistent behavior created a rift in our life. He suspected that perhaps I was diminishing his importance to our family.

کچھ وقت بعد، فاران کا رویہ بد سے بدتر ہوتا گیا۔ وہ میرے خاندان کے بارے میں نازیبا باتیں کرنے لگے، اور ہمارے رشتے میں تلخی بڑھتی گئی۔ میں نے اپنے بچوں کی خاطر اس رشتے کو بچانے کی بہت کوشش کی، لیکن فاران کی ضد اور تلخ رویے نے ہر راستہ بند کر دیا۔ آخر کار، وہ مجھے چھوڑ کر الگ ہو گئے۔

After some time, Faran's behavior became worse and worse. He started talking bad about my family, and our relationship became increasingly bitter. I tried very hard to save the relationship for the sake of our children, but Faran's stubbornness and bitter behavior blocked all avenues. Finally, he left me and separated.

میں نے اس وقت اپنے والدین کے گھر واپس آنے کا فیصلہ کیا۔ میرے والد اور بھائیوں نے نہ صرف میرا استقبال کیا بلکہ میری زندگی کو دوبارہ سنوارنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ میں نے اپنی زندگی کے باقی دن اپنے بچوں کی پرورش اور ان کی تعلیم میں لگا دیے۔

I decided to return to my parents' home at that time. My father and brothers not only welcomed me but also tried their best to rebuild my life. I devoted the rest of my life to raising and educating my children.

اگرچہ میرا دل ہمیشہ انصر کے لیے دھڑکتا رہا، لیکن زندگی نے ہمیں دوبارہ ملنے کا موقع نہیں دیا۔ شاید یہ ہماری قسمت تھی۔ میں نے سیکھا کہ زندگی میں کچھ کہانیاں کبھی مکمل نہیں ہوتیں اور کچھ خواب ہمیشہ ادھورے رہتے ہیں۔ لیکن وقت کے ساتھ ساتھ، میں نے اپنی قسمت کو قبول کر لیا اور اپنی زندگی میں آگے بڑھنے کی راہ ڈھونڈ لی۔

Although my heart always beat for Ansar, life did not allow us to meet again. Maybe it was our fate. I learned that some stories in life are never complete and some dreams are always unfulfilled. But with time, I accepted my fate and found a way to move forward in my life.

Post a Comment

0 Comments

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();