Ad Code

qatil Segrat urdu Story




خاور جمیل دو سال بعد جیل سے رہائی پاکر سیدھا کراچی جانے والی مسافر کوچ میں جا بیٹھا اور منصوبے کے مطابق گولڈ مارک سپر اسٹور کا رخ کیا۔ یہ شہر کا جدید اور وسیع رقبے پر پھیلا ہوا اسٹور تھا۔ وہ اندر وہ داخل ہو کر کاسمیٹکس کے شبے کی جانب چل دیا۔ اسے پوری توقع تھی کہ نگہت وہیں ملے گی۔ ایسے میں یونیفارم میں ملبوس خاتون اس کے قریب آ کر مستفسر ہوئی۔ آپ کو کیا چاہیے؟ عنابی کلر کی لپ اسٹک اور… کہتے ہوئے وہ ذرا رک کر شیلف میں سجی دیگر اشیا کو دیکھنے لگا پھر بولا مسز نگہت آصف یہاں کام کرتی ہیں؟ جی بولئے ! میں ہی نگہت آصف ہوں۔ وہ چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ اسے یاد آیا کہ آصف ہر روز رات کو اپنی بیوی کا تذکرہ کرتا تھا، جس کے مطابق اس کی بیوی نگہت ، لانبے قد کی گوری اور خوب صورت عورت تھی، یہاں تک کہ وہ اکثر اس کو انڈین فلم کی مشہور ایکٹریس سے بھی تشبیہ دے ڈالتا تھا کہ وہ اسی کی طرح خوب صورت ، دلکش اور جواں ہے۔ دراز قامت تو تھی ہی، حسن و شباب میں بھی کم نہیں۔ کوئی بد عادت اسے چھو کر بھی نہیں گزری اور ہاں، جہاں تک پیار کا سوال ہے تو اس کے بعد آصف کی تعریف بڑی پراسرار ہو جاتی تھی۔ اس نے یادوں ۔ کے اوراق پلٹے ، ماضی کی تہیں کھولیں مگر سامنے کھڑی عورت سے مشابہت رکھتی ہوئی ایسی کسی عورت کا تذکرہ اسے نہ ملا۔ سیلز وومین دراز قد تھی۔ بس اس کے علاوہ اس تذکرے سے اس کی کوئی مماثلت نہیں تھی۔ اس کا وزن بھی زیادہ تھا ، وہ بے ڈول اور بھدی تھی۔ شاید آصف سے جدائی یا پھر اس کی غلط کاریوں اور بد روش نے نگہت کو ایسا بنا دیا ہو۔ اس نے دیکھا، عورت کے بال ہلکے براؤن تھے اور وہ نظر کا موٹے فریم والا چشمہ بھی لگائے ہوئے تھی، جس کے عقب سے اس کہ غیر دلکش سی آنکھیں اسے ہی گھورے جارہی تھیں۔ معاف کیجئے ۔ خاور نے اسے بدستور گھورتے پا کر کہا۔ میں جس نگہت آصف کا ذکر کر رہا ہوں، وہ صائمہ اسکوائر میں رہتی تھی، وہ آصف کی بیوی ہے۔ یہ کہتے ہوئے اس کے لہجے میں قدرے گھبراہٹ اور چہرے پر پریشانی کے آثار تھے۔ نگہت نے پلکیں جھپکائیں اور بولی۔ وہ میں ہی نگہت ہوں، فرمائیے! آپ کیا کہنا چاہتے ہیں؟ میں آپ کے شوہر کا پیغام لایا ہوں۔ میرے شوہر وہ تو مر چکے ہیں۔ مجھے معلوم ہے۔ اس کی موت سے چند منٹ پہلے تک میں اس کے پاس ہی تھا۔ میرا نام خاور جمیل ہے۔ ہم دونوں دو سال تک جیل کی ایک ہی کوٹھڑی میں رہتے تھے۔ اس نے دیکھا کہ نگہت کے چہرے پر چھائے ہوئے تاثرات میں کوئی فرق نہیں آیا۔ کیا پیغام لائے ہیں آپ؟ اس نے پہلے جیسے لہجے میں کہا۔ یہ بات میں یہاں نہیں بتا سکتا۔ آپ بتائیے کہ آپ کی چھٹی کتنے بجے ہوتی ہے؟ ساڑھے سات بجے ٹھیک ہے، میں آپ کو باہر گیٹ پر ملوں گا۔ وہ ذرا ہچکچائی، پھر بولی ۔ سڑک کے اس پار موڑ پر ملئیے گا، وہاں ایک پبلک پارک ہے۔ خاور نے اثبات میں سر ہلایا پھر تیزی سے باہر چلا گیا۔

☆☆☆

آصف نے اپنی بیوی نگہت کے بارے میں جو کچھ اسے بتایا تھا، اسے مد نظر رکھتے ہوئے وہ کچھ اور ہی سوچے ہوئے تھا۔ اس نے سوچا تھا کہ وہ آصف کی خوبصورت بیوہ سے پوشیدہ دولت کے بارے میں بات کرے گا اور اس سے شادی کر کے دھوم مچادے گا ، تاہم اسے افسوس تھا کہ اس کا وہ پلان اب مٹی میں مل چکا تھا۔ اس موٹی، بیوقوف عورت کو حاصل کرنے کی اسے ذرا بھی تمنا نہیں تھی۔ خاور سوچتا رہا کہ آصف دو سال تک اپنی بیوی کے بارے میں جھوٹ بولتا رہا، پھر یکایک سب کچھ اس کی سمجھ میں آگیا۔ یقینا آصف نے اپنی کسی ایسی خوب صورت محبوبہ کا ایک حسین تصوراتی خاکہ اپنے دماغ میں بٹھا لیا تھا جس سے اس کی شادی نہ ہو سکی ہوگی۔ پھر بھی خاور کو امید تھی کہ آصف کی ڈیڑھ کروڑ والی بات صحیح ہوگی، تاہم اس نے سوچ رکھا تھا کہ وہ اس کی بیوہ نگہت سے اس طرح بات کرے گا کہ وہ اس سے خوف زدہ نہ ہو۔ نگہت جب پبلک پارک میں اس سے ملی تو اس وقت وہاں اندھیرا چھا چکا تھا اور یہ خاور جمیل کے حق میں اچھا تھا، کیونکہ اندھیرے کی وجہ سے کوئی انہیں اکٹھے نہیں دیکھ سکتا تھا۔ دونوں ایک بینچ پر بیٹھے ہوئے تھے۔ آصف نے مجھے تمہارے بارے میں بہت کچھ بتایا تھا۔ اس نے ہولے سے کہنا شروع کیا۔ آپ کے بارے میں بھی انہوں نے بہت کچھ لکھا تھا، اپنے خطوط میں وہ بھی اسی لہجے میں بولی ۔ ان کا خیال تھا کہ آپ ان کے بہت اچھے دوست ہیں ۔ مجھے اس بات کی بہت خوشی ہے۔ آصف کے بارے میں بھی میرے خیالات بہت اچھے ہیں۔ دراصل اس جیسے شخص کو اس کوٹھری میں قید ہی نہیں کرنا چاہیے تھا۔ یہی خیال ان کا آپ کے بارے میں بھی تھا۔ نگہت نے لقمہ دیا۔ ہم دونوں بد قسمتی سے پکڑ لیے گئے تھے۔ میں اس کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا۔ میں ان دنوں معاشی مسائل میں گھرا ہوا تھا، کھانے کو پھوٹی کوڑی نہیں تھی میرے پاس۔ میں بھی آصف کے ساتھ اس فیکٹری میں کام کرتا تھا۔ سارا فساد بریف کیس سے شروع ہوا تھا، جو اس نے انورشاہ سے چھینا تھا، جو اس دفتر کا کیشئر تھا۔ اس میں تنخواہوں کی خطیر رقم تھی، تقریبا ڈیڑھ کروڑ روپے چوں کہ میں آصف کا کلوز فرینڈ تھا، اس لیے شبے کی بنیاد پر مجھے بھی پولیس کے حوالے کیا گیا، میرا آگے پیچھے کوئی نہیں تھا۔ فیکٹری کا مالک اثر و رسوخ والا آدمی تھا، چنانچہ مجھے بھی دو سال کی سزا ہو گئی ۔ آصف نے اس بارے میں لکھا تھا ۔ تمہارے ساتھ بھی بہت برا سلوک کیا گیا۔ ایسا ہی برا سلوک تو اس کے ساتھ بھی کیا گیا تھا۔ خاور کے لہجے میں نرمی عود آئی تھی، جو اس کے مطابق اس ڈرامے کو کامیاب بنانے کے لیے ضروری تھی۔ آگے بولا ۔ وہ بے چارہ بھی تو بہت سیدھا آدمی تھا، جبکہ انورشاہ اس کا دوست بھی تھا۔ وہ اسے ہلاک نہیں کرنا چاہتا تھا مگر ایسے کاموں میں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ کئی کڑوے گھونٹ پینے ہی پڑتے ہیں۔ خیر، آصف نے اپنے دفتر کے کیشئر کی لاش کو اس طرح ٹھکانے لگایا کہ پولیس اسے برآمد ہی نہ کر پائی۔ یہ کوئی آسان کام نہ تھا۔ انور شاہ کی لاش اب تک نہیں ملی نا ! کیوں نگہت ؟ کہتے ہوئے اس نے چالاکی سے پوچھ بھی لیا۔ ان واقعات کا ذکر نہ ہی کریں، تو بہتر ہے۔ وہ ہولے سے بولی۔ میں جانتا ہوں کہ تمہیں ان کی یاد سے دُکھ ہوتا ہو گا۔ بڑی رسانیت سے کہتے ہوئے اس نے نگہت کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ نگہت کی موٹی ہتھیلی پسینے سے تربتر تھی۔ اس نے ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں کی۔ گوشت کے ٹکڑے کی طرح نگہت کا ہاتھ خاور کے ہاتھ میں ہی رکھا رہا۔



خاور نے پھر کہا۔ حالات سے ہی محسوس ہوتا تھا کہ آصف کو پھانسا گیا تھا۔ نگہت بولی۔ حالاں کہ اس دوپہر، آصف نے انور شاہ کو اپنی کار میں لفٹ بھی دی تھی۔ انور دفتر کے ملازمین کی تنخواہوں کا روپیہ لے کر بینک سے واپس آ رہا تھا۔ اس کی اپنی کار راستے میں خراب ہو گئی تھی اور اتفاقاً ہی آصف مل گیا۔ انور اسی کی کار میں آیا تھا۔ بس، اسی قدر معلومات پولیس کے لیے کافی تھیں ۔ آصف کے کپڑوں پر لگا ہوا خون دھلنے بھی نہ پایا تھا کہ پولیس نے آکر اسے گرفتار کر لیا۔ بچاؤ کا اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا۔ میں نے بہت بتایا کہ وہ سارا دن گھر پر ہی رہا تھا مگر میری کسی نے نہیں سنی ہی نہیں اور اسے دس سال قید کی سزا دے دی گئی۔ مگر یہ اس نے کبھی نہیں بتایا کہ انور شاہ کی لاش اس نے کہاں ٹھکانے لگائی تھی اور نہ ہی یہ کہ وہ رقم کہاں چھپائی تھی۔ اس دھند لکے میں بھی خاور نے دیکھ لیا کہ نگہت نے اثبات میں اپنے سر کو جنبش دی تھی۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔ میرا خیال ہے کہ پولیس والوں نے آصف کو کافی مارا پیٹا بھی تھا، مگر یہ باتیں اس نے پولیس کو نہیں بتا ئیں۔ خاور ایک لمحہ خاموش رہا، پھر سگریٹ سلگا کر ایک گہرا کش لیا اور بولا۔ کیا یہ باتیں اس نے کبھی تمہیں نہیں بتائی تھیں؟ تمہارا کیا خیال ہے؟ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولی۔ مجھے انہی باتوں اور بدنامی کی وجہ سے ہی تو اپنا اپارٹمنٹ چھوڑنا پڑا تھا۔ ہر کوئی مجھے ایک مجرم اور قاتل کی بیوی ہونے کا طعنہ دیتا تھا۔ اب گزشتہ دو سال سے میں اس سپر اسٹور، پر بڑی مشکلوں سے ملنے والی یہ نوکری کر رہی ہوں ۔ ان سب باتوں کو دیکھتے ہوئے کیا تم سمجھتے ہو کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم ہوگا ؟ میں تو ایسے حالات سے گزر رہی ہوں کہ نہ رو پاتی ہوں نہ ہنس سکتی ہوں۔ خاور نے جلدی سے ادھ جلا سگر سکریٹ پھینک دیا۔ اندھیرے میں کتنی دیر تک سلگتے ہوئے سگریٹ کی لال لال نوک چمکتی رہی ۔ اس نے اسی طرف دیکھتے ہوئے اب مقصد کی بات کی طرف آتے ہوئے کہا۔ اچھا نگہت ! اگر وہ روپے تمہیں مل جائیں تو تم ان کا کیا کرو گی؟ کیا اسے پولیس کے حوالے کر دو گی؟ نگہت نے کھنکھار کر اپنا گلا صاف کیا، پھر بولی ۔ کس لئے؟ کیا اس لیے کہ پولیس نے میرے شوہر کو جیل میں سڑا کر مارا ہے، وہ روپیہ انہیں دے کر میں ان کا شکریہ ادا کروں؟ مجھے اطلاع دی گئی تھی کہ نمونیہ کے شدید حملے سے اس کی موت واقع ہو گئی مگر میں جانتی ہوں کہ کیسا ہوتا ہے ان جیلوں کا نمونیہ اور ماحول ۔ اس کی آواز بھرانے لگی۔ جمیل کا ڈاکٹر کہتا تھا، آصف کو انفلوئنزا ہوا ہے۔ اس پر میں نے بہت شور مچایا اور وہ اسے اُٹھا کر مریضوں کے کمرے میں لے گئے۔ خاور بولا ۔ میں تو کہوں گی کہ جیل والوں نے ہی اسے جان سے مارا ہے۔ اپنے جرم کی قیمت آصف نے اپنی جان دے کر چکائی۔ میں اب اس کی بیوہ ہوں ، اب تو وہ دولت اگر مل بھی جائے تو ساری کی ساری میری ہوگی ۔ ہماری کہو، ہماری۔ خاور بولا تو اس کے ہاتھ میں موجود نگہت کی انگلیاں کس سی گئیں۔ اس کے ناخن خاور کو اپنی ہتھیلی میں گڑھتے محسوس ہوئے ، پھر وہ آہستہ سے بولی۔ کیا آصف نے تمہیں بتایا ہے کہ وہ دولت اس نے کہاں چھپائی تھی؟ ہاں بتایا تو تھا خاور دانستہ گومگو سے لہجے میں بولا۔ جب وہ لوگ اسے کوٹھری سے لے جانے لگے تو اس کی حالت بہت نازک تھی۔ اس حالت میں وہ زیادہ بات تو نہیں کر سکتا تھا ، مگر مجھے کچھ اشارہ مل گیا۔ میں نے سوچا جیل سے رہا ہونے کے بعد تم سے مل کر اس پوشیدہ دولت کا پتا لگا سکوں گا۔ اس نے بتایا تھا کہ ڈیڑھ کروڑ کی خطیر رقم ہے۔ اگر ہم اس کا نصف نصف بھی کر لیں تو پچھتر لاکھ کچھ کم رقم نہیں ہوتی۔ اگر تم جانتے ہی ہو کہ وہ رقم کہاں ہے، تو اس طرح اشاروں کنایوں میں کیوں بات کر رہے ہو؟ صاف صاف کیوں نہیں کہہ دیتے۔ نگہت نے قدرے جھنجھلا کر کہا۔ خاور نے بات صاف کرتے ہوئے کہا۔ مجھے جو اشارہ ملا ہے، اسے سمجھنے کے لیے مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے، پھر ہم ساتھ ساتھ اس رقم کی کھوج لگائیں گے۔ میں یہاں اجنبی ہوں، اگر میں اس رقم کے لیے بھاگ دوڑ کروں گا تو لوگ خواہ مخواہ مجھ پر شک کریں گے لیکن اگر تم میری مدد کرو گی تو شبہ کی کوئی گنجائش نہ ہوگی اور یہ بھی ممکن ہے کہ ہمیں اس رقم کا پتا جلد ہی چل جائے۔ اچھا تو نصف نصف کی بات پکی ہے نا! نگہت نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔



جلتا ہوا سگریٹ کا ٹکڑا اب بھی راکھ میں دبی چنگاری کی طرح چمک رہا تھا۔ خاور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ پکی کیا ؟ تم جانتی ہو کہ آصف کے اور میرے درمیان کتنی گہری چھنتی تھی۔ وہ ہر وقت تمہارا ذکر کرتا رہتا تھا۔ کچھ دونوں بعد مجھے ایسا محسوس ہونے لگا جیسے میں بھی تمہیں اچھی طرح جانتا ہوں جتنا آصف تمہیں جانتا تھا۔ میں تمہیں اور بھی قریب سے جاننا اور سمجھنا چاہتا ہوں۔ خاور کا لہجہ دھیما ہی تھا۔ نگہت کے ناخن اسے پھر اپنی ہتھیلی پر چبھتے ہوئے محسوس ہوئے۔ اس بار اس نے بھی نگہت کا ہاتھ آہستہ سے دبا دیا، پھر کہا ۔ نگہت! معلوم نہیں کہ تم مجھے کیسا آدمی خیال کرو، مگر میں دو سال قید رہا ہوں ، جیل کی کوٹھری میں. کیا تم سمجھ سکتی ہو کہ دو سال تک عورت کی قربت سے دور رہنا ایک مرد کے لیے کیسا ہوتا ہے؟ میں نے بھی تو دو سال بالکل تنہا بسر کئے ہیں۔ میں تم سے دوبارہ کب ملوں؟ میرا مطلب ہے اگر خاور لہجے میں محبت بھری نرمی سموتے ہوئے بولا ۔ تم میرے ساتھ ہی چلو۔ جب رقم نصف نصف طے ہوگئی ہے تو پھر دوری کیسی خاور کو اپنا دل خوشی سے بلیوں اُچھلتا محسوس ہونے لگا۔ جو بات وہ کہنا چاہتا تھا، وہ نگہت نے خود کہہ کر اس کی پلاننگ کو گویا حتمی شکل دے ڈالی ۔ تم نے بالکل صحیح سوچا، میں تیار ہوں ۔ اس نے فوراً کہا اور دونوں اُٹھ کھڑے ہوئے۔ ایک بس میں سوار ہو کر اپارٹمنٹ میں پہنچے۔ نگہت یہاں اکیلی رہتی تھی۔ یہ دو کمروں کا چھوٹا فلیٹ تھا، جو سالوں پرانے پروجیکٹس کا حصہ تھا۔ دونوں ہی تھکے ہوئے تھے۔ نگہت بیڈ پر سوگئی اور خاورزمین پر چادر بچھا کر لیٹ گیا۔ اس کا دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ سب کچھ اس کی منصوبہ بندی کے مطابق ہو رہا تھا، بلکہ اس نے اندازہ لگایا کہ کچھ زیادہ ہی جلدی ہو رہا تھا۔ ایسا ہی ہوتا ہے، جب تقدیر مہربان ہو تو راہیں آسان ہونے لگتی ہیں۔ ایک بات کا تو اس نے اندازہ لگا ہی لیا تھا کہ نگہت کو ابھی تک وہ دولت نہیں ملی ہے، ورنہ بھلا وہ اس سڑے اور کابک جیسے چھوٹے فلیٹ میں کیوں رہ رہی ہوتی، تاہم اب بھی اس نے جلدی بازی سے کام نہ لینے کا فیصلہ کیا تھا کیونکہ پچھلی بار اس نے سوچا تھا کہ وہ نوٹوں سے بھرے سوٹ کیس کو لے کر عقبی دروازے سے نکل جائے گا، مگر اس کی اُمید کے برخلاف عقبی دروازے پر پولیس کانسٹیبل مل گیا تھا اور وہ پریشانی میں پھنس گیا تھا۔ پھر جیل میں آصف سے دوستی بڑھا کر ہی اس نے بہت سی باتیں معلوم کر لی تھیں۔ آصف کی بیوی کا ایڈریس اسے معلوم ہو گیا تھا۔ ڈیڑھ کروڑ کی رقم جیل آنے سے پہلے اس نے کہیں چھپا دی تھی، مگر آصف نے یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ رقم اس نے چھپائی کہاں تھی ، پھر وہ بیمار پڑ گیا اور یہ سنہرا موقع بھی خاور کومل گیا کہ وہ دباؤ ڈال کر اس سے اس پوشیدہ خزانے کے بارے میں پوچھ لیتا، مگر آصف اسے یہ بتانے کے لیے تیار نہیں ہوا، تب خاور نے اس کا گلا دبانے کی کوشش کی تھی، مگر اس میں بھی شاید وہ جلد بازی اور زیادتی کر گیا تھا، کیونکہ عین اسی لمحے پہرے دار وہاں آ گیا تھا اور اس کے قدموں کی آواز سنتے ہی خاور نے آصف کو چھوڑ دیا تھا۔ اس کے بعد آصف کو جیل کے اسپتال میں لے جایا گیا۔ خاور کو ڈر تھا کہ آصف کو ہوش آ گیا تو وہ اس کے حملے کی بابت پولیس کو کہیں آگاہ نہ کردے لیکن اسی رات آصف چل بسا اور جیل کے ڈاکٹر نے رپورٹ دے دی کہ وہ نمونیہ سے مر گیا۔ خاور صاف بچ گیا تھا، اسی لیے وہ یہ پلان بنارہا تھا اور اب تک اس کا پلان کامیاب رہا تھا۔ جیل سے رہا ہونے کے بعد وہ پہلی ہی بس سے کراچی آن پہنچا تھا۔ اب اسے نگہت کی مدد کی سخت ضرورت تھی۔ وہ اس کے لیے ڈھال بن گئی تھی، مگر اس کے بارے میں آصف نے جو اسے بتایا تھا کہ وہ گڑیا جیسی خوب صورت ہے یہ بات غلط ثابت ہوئی تھی ، کیوں ؟ اس نے سوچا، تاہم اب اسے نگہت کی مدد کی سخت ضرورت تھی اور وہ اسے اس قدر شیشے میں تو اُتارہی چکا تھا کہ اس وقت اس کے فلیٹ میں موجود تھا اور آئندہ کے لائحہ عمل پر آرام سے غور کر رہا تھا۔



تم جاگ رہے ہو کیا؟ اچانک نگہت نے پوچھا۔ وہ کانپ گیا اور بولا۔ ہاں! میرے خیال میں ہمیں آئندہ کے لیے پلان بنا لینا چاہیے۔ بالکل ، مجھے تم جیسی عقل مند عورتیں ہی پسند ہیں ۔ وہ چہرے پر زبردستی مسکراہٹ لاتے ہوئے بولا۔ تم ٹھیک کہتی ہو، کام جتنی جلدی شروع کر دیا جائے اُتنا ہی اچھا رہے گا۔ وہ سمجھ گیا تھا کہ اتنی خطیر رقم کے حصول کے بارے میں جان کر وہ بھی اس کی طرح بے چین ہو گئی تھی۔ یہ ایک طرح سے اس کے منصوبے کے لیے اچھا ہی تھا۔ آصف نے مجھے مرنے سے پہلے اتنا ضرور بتایا تھا کہ وہ رقم اب بھی انور شاہ کے پاس ہے۔ میرا مطلب ہے اس کی لاش کے پاس یا ساتھ اس لیے پولیس جب تک لاش کا پتا نہیں لگا سکتی، اس وقت تک وہ رقم بھی پولیس کے ہاتھ نہیں لگ سکتی ۔ نگہت خاموشی سے سنتی رہی پھر مستفسر ہوئی۔ بس اتنا ہی بتایا تھا آصف نے؟ تم اور کیا چاہتی ہو؟ ساری بات بالکل صاف تو ہے۔ وہ رقم انور کی لاش کے پاس ہی کہیں چھپائی گئی ہے۔ نگہت اُٹھ کر اس کے پاس قریب میٹریس پر بیٹھ گئی اور بولی۔ دو سال سے پولیس انور کی لاش کو تلاشتی پھر رہی ہے، مگر ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی۔ پھر ایک لمبی ہمکاری بھر کے بولی۔ میرا خیال تھا کہ تمہیں کوئی خاص بات معلوم ہوگی لیکن ایسا نہیں ہے۔ اچھا یہ بتاؤ کہ پولیس اب تک لاش کو کہاں کہاں تلاش کر چکی ہے؟ ہم ان دنوں کرایے کے جس مکان میں رہتے تھے، سب سے پہلے اس کی تلاشی ہوئی تھی، مگر ایک بار تلاشی لینے کے بعد بھی پولیس مطمئن نہ ہوسکی تھی، تین دن بعد پولیس نے پھر گھیرا ڈالا تھا اور اس بار ساری الماریاں اور ایک ایک تختہ اُکھاڑ کر دیکھا گیا تھا۔ اس کے بعد؟ پولیس کے آدمی ایک ماہ تک لاش کی تلاش میں سرگرداں رہے۔ انور غیر شادی شدہ نوجوان تھا۔ اس کا فلیٹ شہر کے وسط میں تھا۔ سننے میں آیا تھا کہ اس نے شہر کے ساحلی علاقے کی طرف بھی کوئی بڑا سا پلاٹ، جو نجانے اس نے خرید رکھا تھا یا اس کے مرحوم باپ کی ملکیت تھا، وہاں دوستوں کے ساتھ شکار پر جایا کرتا تھا، اس طرف اس نے ایک جھونپڑی ٹائپ مکان بنوا رکھا تھا۔ اس کی بھی تلاشی لی گئی، مگر خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہوا۔ خاور چند ثانیوں کی پر سوچ خاموشی میں مستغرق رہا پھر بولا ۔ آصف نے جس وقت انور شاہ کو اپنی کار میں بٹھایا تھا اس کے کتنی دیر بعد وہ گھر واپس آیا تھا؟ تقریبا تین گھنٹے بعد اس سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ اسے کہیں اور جانے کا موقع ہی نہیں ملا۔ یقیناً یہیں آس پاس ہی اس نے انور شاہ کی لاش کو چھپایا ہوگا۔ پھر ذرا وقف کے بعد بولا۔ اچھا تم ذرا اپنے ذہن پر زور دے کر بتاؤ۔ کیا واقعی انور کی آصف کے ساتھ دوستی تھی ؟ ہاں، میں نے ان میں ہمیشہ گہری چھنتی دیکھی۔ نگہت جواب میں بولی۔ وہ دونوں ہم نوالہ اور ہم پیالہ تھے۔ ان کی کوئی خاص مشغولیات.. تم میرا مطلب سمجھ رہی ہونا ! زیادہ تر وہ مچھلی کا شکار کھیلتے تھے۔ وہ دونوں اکثر اس نیم ساحلی علاقے کی طرف چلے جایا کرتے تھے جدھر انور شاہ کے مرحوم باپ کا پلاٹ تھا۔ دو ایک بار آصف کے ساتھ میں بھی وہاں جا چکی ہوں ۔ کھلی فضا کے سبب مجھے وہ جگہ پسند تھی ، مگر مچھلی کے شکار سے مجھے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ علاقہ میرے خیال کے مطابق مغرب میں چالیس سے پچاس کلومیٹر کی دوری پر ہوگا۔ خاور نے کچھ سوچتے ہوئے اپنے ہونٹ بھینچ لیے۔ میں نے بتایا تو ہے کہ پولیس نے وہاں کی تلاشی لے لی ہے۔ میرا مطلب یہ تھا کہ وہاں ضرور کوئی شیڈ یا بوٹ ہاؤس ہوگا ۔ خاور نے وضاحت کی۔ انور شاہ ایسا کوئی مال دار آدمی نہیں تھا ۔ نگہت بولی۔ دونوں جب بھی شکار کے لیے وہاں جاتے تھے تو کرائے پر کشتی لے کر جاتے تھے ۔ نگہت نے جانے کیوں ایک گہری سانس لی تھی، جیسے اس موضوع سے اُکتانے لگی ہو۔ خاور نے مضطر بانہ انداز میں ایک سگریٹ سلگایا پھر کہا ۔ دیکھو نگہت ! اگر ڈیڑھ کروڑ کی رقم حاصل کرنی ہے تو اس معمہ کو حل کرنا ہوگا۔ جس روز انور شاہ مارا گیا تھا، اس دن کے واقعات یاد کرو، شاید تم اب بھی کوئی بات بھول رہی ہو۔



میں گھر پر تھی، اس لئے نہیں جانتی کہ کیا واقعات پیش آئے تھے۔ اس روز آصف کی چھٹی تھی اور وہ باہر گھومنے نکلا ہوا تھا۔ جانے سے پہلے کیا اس نے کچھ کہا تھا؟ کیا وہ نروس دکھائی دے رہا تھا ؟ نہیں، میں نہیں سمجھتی کہ اس نے پہلے سے کوئی پلان تیار کر رکھا ہو۔ اچانک ہی جب انور اتنی رقم کے ساتھ کار میں بیٹھا ہو تو یقینا اس وقت ہی اس کے ذہن میں کوئی منصوبہ تشکیل پایا ہوگا۔ مگر لوگوں کا تو یہی خیال تھا کہ آصف نے پہلے سے منصوبہ بنا رکھا تھا، کیونکہ گہری دوستی کے سبب اس کو یہ معلوم ہی تھا کہ انور اس روز بینک سے اپنے دفتر کے تمام ملازمین کی تنخواہ نکلوا کر لاتا ہے۔ خاور نے سر ہلا کر کہا۔ آصف کار پر اکیلا ہی واپس آیا تھا؟ اس نے تم سے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے کوئی خاص بات نہیں کی تھی۔ وقت ہی کہاں تھا؟ ان کی آمد کے دو منٹ بعد ہی پولیس آگئی تھی۔ بھلا کس نے پولیس کو اتنی جلد خبر کر دی؟ خاور کو حیرت ہوئی۔ جب انور کافی دیر تک نہیں لوٹا تو فیکٹری کے مالک ثاقب جنیدی کو تشویش ہوئی، اس نے بینک فون کیا۔ کیشئر اور چوکیداروں سے پوچھ کچھ کی گئی، چوکیداروں نے بتایا کہ انور اپنی کار وہیں چھوڑ کر اپنے دوست کی گاڑی میں چلا گیا تھا، اسی لیے پولیس ان کی تلاش میں یہاں آ پہنچی تھی۔ جب آصف لوٹ کر آیا تھا اس وقت کیا وہ گردوغبار میں اٹا ہوا تھا ؟ خاور نے پوچھا۔ نہیں، صرف ان کے ہاتھ کچھ گندے تھے۔ گھر میں ایسی کوئی چیز نہیں ملی تھی جس سے پولیں کچھ پتا لگا سکتی۔ البتہ ان کے جوتوں میں کیچڑ لگی ہوئی تھی ، ان کا ذاتی پستول بھی گھر میں نہیں تھا، جس پر کافی اعتراضات کئے گئے۔ وہ اگر پستول لے کر نہ گئے ہوتے تو شاید بچ جاتے ۔ وہ کہتے رہے کہ ان کا پستول گزشتہ کئی ماہ سے غائب ہے مگر کسی نے ان کی اس بات پر یقین ہی نہیں کیا۔ اچھا اور کوئی خاص بات۔ ہاں، وہ جب لوٹ کر آئے تھے، اس وقت ان کا ہاتھ زخمی تھا۔ میں نے زخم دیکھ کر اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے چوہوں کے بارے میں کچھ کہا تھا، جبکہ عدالت میں انہوں نے بتایا تھا کہ کار کی کھڑکی کا شیشہ ٹوٹ جانے سے ان کا ہاتھ زخمی ہو گیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ کار کی سیٹ پر جو خون ٹپکا ہوا ملا تھا وہ ان کے زخمی ہاتھ کا ہی تھا۔ معائنہ کرنے پر کار کا شیشہ ٹوٹا ہوا ملا بھی تھا، مگر ڈاکٹری معائنہ کرنے پر معلوم ہوا کہ وہ خون ان کا نہیں تھا، بلکہ انور کے خون سے مماثلت رکھتا تھا ۔ مگر یہ بات تو آصف نے تمہیں بتائی نہیں تھی تم سے اس نے یہی کہا تھا کہ اسے چوہے نے کاٹ لیا ہے۔ تو خاور نے کہا ۔ انہوں نے چوہوں کے بارے میں کچھ کہا ضرور تھا جسے میں ٹھیک طرح سن نہ سکی تھی۔ میں اس وقت کچن میں چولہے کی بھڑکتی ہوئی آگ کم کر رہی تھی۔ عدالت میں، گرفتاری کے بعد ان کا طبی معائنہ کرنے والے ڈاکٹر نے بیان دیا تھا کہ بلیڈ سے انہوں نے اپنا ہاتھ زخمی کرلیا تھا۔ پولیس کو باتھ روم میں وہ بلیڈ بھی رکھا ہوا مل گیا تھا اور اس پر خون بھی لگا ہوا تھا ۔ ذرا ٹھہرو خاور نے اپنی ذہنی ہلچل پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ آصف نے تم سے چوہوں کے بارے میں کچھ کہا تھا، پھر وہ باتھ روم گیا تھا، وہاں اس نے بلیڈ سے اپنی انگلی تھوڑی سی اور زخمی کر لی تھی ، اب اُلجھن حل ہوتی جا رہی ہے، کیا تم سمجھ نہیں رہی ہو نگہت ؟ پل کے پل خاور کا چہرہ کامیابی کی امید تلے سرخ ہونے لگا، مگر نگہت نا سمجھ میں آنے والے انداز سے اسے تکتی رہی تو وہ اسی جوش سے آگے بولنا شروع ہوا۔ آصف کی انگلی میں چوہے نے ہی کا ٹا تھا۔ شاید اس وقت جب وہ انور کی لاش کو چھپانے کی کوشش کر رہا تھا مگر یہ بات اس نے پولیس کو نہیں بتائی تھی۔ کیوں ؟ اس لیے کہ اگر پولیس یہ جان جاتی تو شاید لاش کا پتا بھی لگا لیتی ۔ وہ ایسی جگہوں کی تلاشی لیتی، جہاں چوہے زیادہ پائے جاتے ہیں ۔ اس بات کو پوشیدہ رکھنے کے لیے اس نے اپنی انگلی بلیڈ سے مزید زخمی کر لی تھی تا کہ کوئی شناخت ہی نہ کر سکے۔ ہو سکتا ہے۔ نگہت بولی۔ مگر ان معلومات سے بھی ہمیں کیا فائدہ ہو سکتا ہے؟ کیا ہم اس مغربی ساحلی علاقے کے قرب و جوار کی ان تمام جگہوں پر لاش کو تلاش کریں، جہاں چوہے بکثرت ہوں؟ نہیں خاور نے نفی میں سر ہلایا۔ ابھی تم نے بتایا تھا کہ آصف اور انور کشتی کرایے پر لیا کرتے تھے۔ وہ کن لوگوں سے کشتی لیا کرتے تھے؟ اور کشتی کو کہاں کھڑا کرتے تھے، یہ معلوم ہے تمہیں؟ ایک بوٹ ہاؤس میں۔ جن کا بوٹ ہاؤس ہے، کیا اس روز وہ وہاں تھے؟ نہیں۔ وہ بوٹ ایک مقامی زمیندار کی تھی اور انہی کا بوٹ ہاؤس بھی تھا، انور کی موت سے دو ہفتے پہلے ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں ان کی موت واقع ہوگئی تھی۔ یہ بات آصف کو معلوم تھی؟ انہوں نے ہی یہ بات مجھے بتائی تھی۔ نگہت کی آواز کچھ بھرا اُٹھی۔ ان دنوں مچھلی کے شکار کا بھی موسم نہیں تھا۔ آج کل اس بوٹ ہاؤس میں کون رہتا ہے؟ کوئی نہیں، زمیندار سائیں رکھیو کا کوئی وارث نہیں تھا۔ گورمنٹ نے ابھی تک ان کی جائیداد فروخت نہیں کی ہے۔ یہی حال انور شاہ کی جائیداد کا ہے کیونکہ اس کا بھی کوئی وارث نہیں ہے۔ میں وہاں جانے کے پلان پر سنجیدگی سے غور کرنے لگا ہوں ۔ بالاخر خاور نے متقی لہجے میں کہا ۔ نگہت اس کی طرف تکتی رہی۔ اور تم بھی میرے ساتھ چلوگی ۔ دوستی اور تعلق داری اپنی جگہ مگر جہاں پیسوں کا معاملہ ہو، وہاں بات صاف رہنی چاہیے۔ بلکہ ہو سکتا ہے کہ میں رقم تقسیم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔ کیونکہ، خاور نے اس کی طرف پیاری بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے دانستہ اپنا جملہ اُدھورا چھوڑ دیا اور نگہت کا چہرہ شرم سے سرخ ہونے لگا۔ وہ اس کا اشارہ سمجھ رہی تھی ، جبکہ اس کی نیت میں کیا تھا، وہ نہیں جانتی تھی۔ ایک بار رقم ہاتھ لگ جائے بی بی پھر تمہارا بھی بندوبست ہمیشہ کے لیے کر ڈالوں گا اور رقم ساری میری ہوگی۔ خاور نے دل ہی دل میں کہا اور بظاہر محبت بھرے انداز میں مسکراتا رہا، پھر جلدی سے بولا ۔ تم کسی طرح گاڑی کا بندوبست کرو۔ کل میری ہفتہ وار چھٹی ہے، میں اپنی ایک سہیلی سے کار لے آؤں گی۔ تو پھر مسئلہ ہی حل ہو گیا۔ خاور نے کہا۔
☆☆☆



انہیں نکلتے نکلتے دوپہر ہو ہی گئی اور وہ ایک گھنٹے میں اس نیم ساحلی علاقے میں پہنچ گئے۔ یہاں بڑی سی جھیل نظر آرہی تھی۔ ان کی کوشش یہی تھی کہ وہ کسی کی نظروں میں نہ آئیں۔ وہ اس جھونپڑ نما کا ٹیج پر پہنچ کر رک گئے ۔ دور دور تک سردست سناٹے کا راج تھا۔ خاور کو اندازہ ہو رہا تھا کہ اس جھونپڑے اندر تو انور شاہ کی لاش نہیں ہو سکتی۔ دونوں کار سے اُتر آئے۔ میرا خیال ہے اب تم بوٹ ہاؤس چلنا پسند کرو گے۔ یہاں سے بائیں سمت چلو، میں راستہ بتاتی ہوں۔ سنبھل کر چلنا، راستے میں کافی پھسلن ہے ۔ اندھیرے میں چلنا خطرناک ہی تھا، کیونکہ شام ہونے کے سبب تاریکی کا غلبہ ہونے لگا تھا، مگر روشنی لے کر چلنا بھی ٹھیک نہ تھا۔ بوٹ ہاؤس جھیل کے کنارے پر ہی واقع تھا۔ خاور نے دروازہ ٹٹولا، اس پر قفل لگا ہوا تھا۔ تم ٹھہرو، میں اس کا انتظام کرتا ہوں ۔ اتنا کہہ کر وہ دوڑ کر ایک نوک دار پتھر اٹھا لایا۔ قفل پرانا اور زنگ آلود تھا۔ دو تین وار سے ہی نیچے آ رہا۔ خاور نے نگہت کے ہاتھ سے فلیش لائٹ لی اور دروازہ کھول کر روشنی اندر پھینکی تو ڈھیر ساری سرخ انگارے سے نظر آئے جیسے سگریٹوں کے جلتے ہوئے ٹکڑے ہوں ۔ ایک لمحہ کے اندر اندر وہ سمجھ گیا۔ وہ آنکھیں تھیں، چوہوں کی آنکھیں۔ خاور کو چوہوں سے بہت ڈر لگتا تھا۔ فلیش لائٹ کی روشنی میں جب چوہے ادھر اُدھر بھاگ گئے تو اس کی جان میں جان آئی۔ اس نے فرش پر روشنی پھینکی ۔ وہ جگہ جگہ سے اُدھڑا ہوا تھا۔ تو پولیس یہاں آچکی ہے۔ وہ بدبدا یا۔ میں نے تو تم سے پہلے ہی کہا تھا کہ پولیس ہر ممکن جگہ تلاش کر چکی ہے ۔ نگہت بولی۔ خاور نے روشنی ادھر اُدھر ڈالی ۔ بوٹ ہاؤس تمام تر خالی تھا۔ اس میں کشتی بھی کوئی نہیں تھی۔ یہاں تو کچھ بھی نہیں ہے۔ نگہت نے نا اُمید ہوتے ہوئے کہا۔ ٹھہرو تو ، جب یہاں تک آئے ہی گئے۔ ہیں تو کیوں نہ پورے مکان کو اچھی طرح دیکھ لیں ! پھر اس نے آگے بڑھ کر فلیش لائٹ کی روشنی چھپر پر ڈالی اور ٹھٹھک گیا۔ وہ دیکھو نگہت … اس کی چھت چھپر سے کافی نیچے ہے۔ تو اس سے کیا ہوتا ہے؟ ممکن ہے چھت اور چھپر کے درمیان کچھ جگہ ہو۔ ہاں لیکن ؟ اوہ سنو! اس نے نگہت کو خاموش ہونے کا اشارہ کیا۔ چھت پر کھڑکھڑاہٹ سی ہو رہی تھی ۔ صاف ظاہر تھا کہ چھت اور چھپر کے درمیان چوہے دوڑ رہے تھے اور کوئی چیز کھڑکھڑ کی آواز پیدا کر رہی تھی۔ آؤ باہر شیڈ میں سیڑھی تلاش کریں۔ انہیں بوٹ ہاؤس کے قریب ہی ٹین کے ایک چھوٹے سے شیڈ میں ایک سیڑھی مل گئی اور نگہت کو لوہے کا ایک گرز پڑا مل گیا۔ خاور نے سیڑھی لگائی اور نگہت نے فلیش لائٹ سے چھت پر روشنی پھینکی۔ وہاں ساری سیلنگ پر موٹے کاغذ چسپاں تھے۔ خاور نے لوہے کے اس گرز سے ان کاغذوں کو اکھاڑا۔ کاغذوں کے نیچے پلائی ووڈ کے دوتین تختے بے ترتیبی سے ٹھونکے گئے تھے۔ صاف ظاہر ہورہا تھا کہ یہ کام گھبراہٹ اور جلد بازی میں کیا گیا ہے۔ خاور نے اسی گرز سے تینوں تختے اُکھاڑ ڈالے، تو چوہے ادھر اُدھر دوڑنے لگے۔ خاور نے نگہت سے فلیش لائٹ لے کر کھڑکی نما دراز سے روشنی اندر ڈالی اور اس کی مسرت کی انتہا نہ رہی۔ لوہے کا وہ سیاہ بکس سامنے ہی رکھا تھا اور اس کی بغل میں ایک بھیانک ڈھانچہ پڑا ہوا تھا۔ خاور ڈھانچے کو دیکھتے ہی سمجھ گیا کہ وہ انور شاہ کی لاش ہے۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر بکس کو اپنے قریب کھینچا اور اس کا ڈھکن اُونچا کر کے دیکھا تو اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اندر ڈیڑھ کروڑ کی رقم موجود تھی۔ تعفن اور بدبو کے باوجود خاور کو صندوق میں سے خوشبوؤں کی لپیٹیں اُٹھتی محسوس ہوئیں۔ کچھ ہے وہاں نگہت نے کانپتے لہجے میں پوچھا۔ ہاں ۔ خاور نے جواب میں کہا ۔ سیڑھی پکڑی رہو، میں اسے لے کر اُترتا ہوں۔ وہ اتر نے لگا۔ اب نگہت کا کام تمام کرنے کا وقت اب آگیا تھا۔ وہ یہی سوچتا اور پلان بناتا رہا مگر اسے نگہت کے کا منصوبے کے بارے میں تو کچھ علم ہی نہ تھا، لہذا جوں ہی وہ صندوق لے کر نیچے اترا، نگہت نے پوری طاقت سے لوہے کا گرز گھمایا اور اس کے سر پر دے مارا۔ وار اتنا بھر پور تھا کہ وہ آہ بھی نہ کر سکا اور چکرا کر زمین پر آرہا۔ تقریباً پندرہ منٹ تک وہ بے ہوش پڑا رہا۔ اس دوران نگہت نے ایک رسی تلاش کرلی یا شاید اپنے ساتھ لائی تھی۔ بہر کیف وہ اسے استعمال میں لانا اچھی طرح جانتی تھی۔ جب خاور ہوش میں آیا تو اس نے خود کو رسی میں جکڑا ہوا پایا۔ نگہت نے اس کا منہ رومال سے کس کر باندھ دیا تھا۔ وہ فرش پر بے حس و حرکت پڑا دیکھتا رہا۔ نگہت نے بکس کھول کر دیکھا اور ایک قہقہہ لگا کر ہنس پڑی فلش لائٹ فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ اس کی روشنی میں خاور کو اس کا چہرہ صاف نظر آرہا تھا۔ وہ اب چشمہ نہیں لگائے ہوئے تھی۔



نگہت نے اس کو یوں اپنی طرف ٹکٹکی باندھے گھورتے ہوئے پایا تو مسکرا کر بولی۔ مجھے ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سب تو اس ڈرامے کا ایک حصہ تھا۔ میں نے اپنے بالوں کا رنگ ذرا بدل لیا تھا اور وزن بھی جان بوجھ کر بڑھایا تھا تا کہ کسی کی مشکوک نظریں مجھ پر نہ پڑیں۔ جانتے ہو، کبھی کبھی انسان کو بہروپیہ بنا پڑتا ہے۔ خاور نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کے منہ میں رومال ٹھونسا ہوا تھا۔ اس کی بے بسی دیکھ کر نگہت کو مزہ آگیا۔ وہ اسی لہجے میں بولی آصف کو اس رقم کا لالچ نہیں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انور شاہ کے ساتھ میرے تعلقات تھے۔ ہم دونوں تقریباً چھ ماہ سے آصف کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آصف کے کانوں تک یہ بات کس طرح پہنچی۔ بہرحال! اسے مجھ پرشک ہو گیا اور وہ مجھ پر کڑی نظر رکھنے لگا۔ وقوعے کے روز وہ اپنا پستول لے کر انور شاہ کو ختم کرنے کے ارادے سے ہی نکلا تھا۔ ممکن ہے کہ بعد میں وہ مجھے بھی مار ڈالتا۔ اس رقم کے بارے میں تو اس وقت تک اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا، مگر یہ نگہت نے اس کو یوں اپنی طرف ٹکٹکی باندھے گھورتے ہوئے پایا تو مسکرا کر بولی۔ مجھے ان سب چیزوں کی ضرورت نہیں تھی۔ یہ سب تو اس ڈرامے کا ایک حصہ تھا۔ میں نے اپنے بالوں کا رنگ ذرا بدل لیا تھا اور وزن بھی جان بوجھ کر بڑھایا تھا تا کہ کسی کی مشکوک نظریں مجھ پر نہ پڑیں۔ جانتے ہو، کبھی کبھی انسان کو بہروپیہ بنا پڑتا ہے۔ خاور نے کچھ کہنا چاہا مگر اس کے منہ میں رومال ٹھونسا ہوا تھا۔ اس کی بے بسی دیکھ کر نگہت کو مزہ آگیا۔ وہ اسی لہجے میں بولی آصف کو اس رقم کا لالچ نہیں تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ انور شاہ کے ساتھ میرے تعلقات تھے۔ ہم دونوں تقریباً چھ ماہ سے آصف کی آنکھوں میں دھول جھونکتے رہے تھے۔ مجھے معلوم نہیں کہ آصف کے کانوں تک یہ بات کس طرح پہنچی۔ بہرحال! اسے مجھ پرشک ہو گیا اور وہ مجھ پر کڑی نظر رکھنے لگا۔ وقوعے کے روز وہ اپنا پستول لے کر انور شاہ کو ختم کرنے کے ارادے سے ہی نکلا تھا۔ ممکن ہے کہ بعد میں وہ مجھے بھی مار ڈالتا۔ اس رقم کے بارے میں تو اس وقت تک اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا، مگر یہ بات وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ تنخواہ کی تقسیم کے روز انور شاہ با آسانی بینک میں مل سکتا تھا۔ میرا خیال ہے کہ وہ انور کو بے ہوش کر کے یہاں لایا تھا۔ یہاں پہنچ کر مرنے سے پہلے انور کو ہوش آگیا تھا اور وہ کہتا رہا تھا کہ وہ بے قصور ہے ۔ واپس پہنچ کر آصف نے ہی مجھے یہ بات بتائی تھی، مگر اس سے مجھے یہ پوچھنے کا موقع ہی نہیں ملا تھا کہ اس نے انور شاہ کی لاش کہاں ٹھکانے لگائی ہے۔ میں اس سے پوچھنا ہی چاہتی تھی کہ اچانک پولیس آگئی اور ہمارے مکان کو گھیرے میں لے لیا۔ اس کی گرفتاری کے بعد بھی مجھے ایسا کوئی موقع نہیں ملا کہ میں اس سے اس رقم کے بارے میں پوچھ سکتی اور میرا نہیں خیال کہ میری اور انور کی حقیقت جان لینے کے بعد وہ مجھے کچھ بتاتا بھی۔ خیر، اب میرے لیے یہی ایک راستہ تھا کہ میں آصف یا اس کے کسی ساتھی کی رہائی کا انتظار کروں اور اس سے پوشیدہ دولت کے بارے میں معلومات حاصل کروں ، بس یہی تھا میرا منصوبہ خاور نے پھر کچھ کہنا چاہا مگر اس کا منہ بہت کس کر بندھا ہوا تھا ، وہ کچھ بھی نہ بول سکا۔ جانتے ہو، میں نے تم پر حملہ کیوں کیا ؟ وہ پھر بولی ۔ اس لیے کہ تم مجھ پر حملہ کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔ جیل سے سزا کاٹ کر نکلنے والے اسی طرح کی باتیں سوچا کرتے ہیں۔ میں خود بھی تو ایک قیدی کی طرح رہ چکی ہوں، تنہائی، تنگ دستی اور حالات کی قیدی … میں یہ بھی جانتی ہوں کہ تم نے میری ہمدردی لینے اور مجھ سے محبت دکھانے کے لیے، کچھ باتیں جھوٹ بھی بولی تھیں ، کیونکہ میں تو کافی حد تک بہت کچھ جانتی تھی ، اس سے بھی مجھے تمہاری نیت پر شک کرنے کا پورا حق حاصل رہا۔ خیر ، اب میں اس رقم کا مناسب استعمال کرنے کا پلان بناؤں گی اور تم ادھر اپنی موت کا۔ مجھے یقین ہے کہ آصف سے بھی تم نے رقم کے بارے میں اُگلوانے اور اسے ہلاک کرنے کی کوشش کی ہوگی، خیر، یہی تو ہوتا ہے دولت کے لالچ میں اب تم اپنی موت کا انتظار کرو تمہیں چوہوں سے ڈر لگتا ہے نا یہ کہہ کر وہ جانے کے لیے مڑی۔



اس بار خاور نے کچھ بولنے کی کوشش نہیں کی بلکہ اپنی بندھی ہوئی ٹانگیں اُٹھا کر نگہت پر دے ماریں، وہ اس اچانک حملے سے لڑکھڑا کر گر پڑی۔ اس کے گرتے ہی خاور نے پیروں سے اس کے پیٹ پر وار کرنے شروع کر دیئے۔ نگہت تڑپ کر پرے ہوئی تو اس کا پیر دروازے سے ٹکرایا اور کواڑ ایک جھٹکے سے بند ہو گیا ، مگر خاور اس وقت تک اس پر وار کرتا رہا، جب تک اسے یقین نہ ہو گیا کہ وہ بے ہوش یا مر چکی ہے۔ نگہت کا بے جان جسم دروازے سے لگا پڑا رہا۔ کچھ دیر بعد فلش لائٹ بھی فرش پر لڑھک کر بجھ گئی اور ہولناک تاریکی نے اپنا تسلط جما لیا۔ تب وہ لڑھک کر اس کے پاس آیا اور اپنا چہرہ اس کے جسم پر رکھا تو اس کے سارے بدن میں ایک سنسنی سی پھیل گئی۔ نگہت کا جسم ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ خاور نے ادھر اُدھر لڑھک کر اپنے ہاتھ کھولنے کی کوشش کی۔ فرش پر ہاتھ رگڑ کر بندھی رسی کو کاٹنا چاہا۔ اس کی کلائیوں سے خون رسنے لگا مگر رسی نہ ٹوٹی۔ نگہت کا مردہ جسم دروازے سے لگا پڑا تھا اور دروازہ بند تھا۔ اس نے بار بار اپنا سر پٹخ کر اس کے بے جان جسم کو دروازے سے ہٹانے کی کوشش کی، مگر سب بے سود وہ کافی بھاری بھر کم تھی۔ وہ لڑھک کر ڈیڑھ کروڑ سے بھرے ہوئے صندوق سے ٹکرا گیا۔ اس قید میں اس کا دم گھٹا جا رہا تھا۔ وہ مسلسل کوشش کرتا رہا، مگر باہر نہ نکل سکا۔ تھوڑی دیر بعد ہی قبر ایسی کالی گھپ تاریکی میں سرخ قمقمے نظر آنے لگے اور وہ لرز کر رہ گیا۔ چوہے واپس آگئے تھے اور انہوں نے جگہ جگہ سے اس کے جسم کو کترنا شروع کر دیا تھا۔

Post a Comment

0 Comments

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();