شروع شروع کے دن تو بالکل ٹھیک تھے۔ جیسے سب کے ہوتے ہیں، جب لگتا ہے، میرا والا تو سب سے الگ ہے یا میری والی تو سب سے حسین ہے، تو اس کے بھی وہ دن ایسے ہی تھے۔ ان دنوں ایسے ساحر کی وہ وہ خوبیاں نظر آنے لگیں جو پہلے کہیں چھپی ہوئی تھیں۔ وہ اسے پسند نہیں تھا تو نا پسند بھی نہیں تھا۔ جب امی نے خالہ کی محبت میں یہ رشتہ طے کیا تو اچانک زارا کو وہ بہت ہی اچھا لگنے لگا۔ پوری دنیا سے الگ ۔ کیونکہ دل کا محل بالکل خالی تھا تو کہیں چپکے سے اس محل کا راجا بن بیٹھا۔ اور اس کی کزنز۔ وہ بھی تو اسے یہ احساس دلاتی رہتی ہیں کہ وہ کتنی خوش قسمت ہے۔ ساحر اس کی خوش قسمتی ہی تو تھا۔ پورے خاندان کی کنواری لڑکیاں اس کی ہمراہی کے خواب دیکھتی تھیں مگر وہ اس کی قسمت ٹہرا – وہ ایم ایس سی کے پہلے سال میں تھی، جب ایک سنہری شام دونوں کی منگنی کی تقریب ہوئی ۔ گلابی جالی دار دو پٹے کے ہالے میں اس کا چہرہ چمکتا تھا اور ہونٹ دوپٹے کے ہم رنگ معلوم ہوتے تھے اور اس کے پہلو میں بیٹھا ساحردھیمی مسکان چہرے پہ سجائے وقفے وقفے سے جب اس پر نگاہ ڈالتا تو لبوں میں دبی مسکان کچھ مزید گہری ہو جاتی۔ منگنی کے چاردن بعد ساحر کی انگلینڈ کی فلائٹ تھی لہذا ان کو بات چیت کے لیے کچھ وقت دے دیا گیا۔ تم خوش ہونا زارا ؟ اس نے اس سے دھیمے لہجے میں پوچھا جو وہ ہمیشہ سے سنتی آئی تھی۔ زارا سے اپنی خوشی سنبھالی ہی نہیں جارہی تھی اسے لگا اگر وہ بولی تو کچھ الٹا سیدھا بول دے گی , چنانچہ اس نے صرف سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ میں بھی بہت خوش ہوں۔ تم بالکل ویسی ہو جیسی میں سوچا کرتا تھا کہ میری بیوی ہو۔ امی نے بالکل میرے مزاج کے مطابق لڑکی ڈھونڈی ہے۔ میں تھوڑی جذباتی ہوں لیکن وہ اپنی خامی کا اعتراف کرتے ہوئے رک گئی۔ میں جانتا ہوں زارا! بچپن سے تمہیں دیکھ رہا ہوں ۔ مگر میں سنبھال لوں گا ۔ وہ جیسے اس کی ہر خوبی، خامی قبول کرنے کا عندیہ دے رہا تھا۔ آپ مجھ سے فون پہ بات تو کیا کریں گے نا۔؟ جھجکتے ہوئے زارا نے وہ بات پوچھی جو اس کے دماغ میں کب سے چل رہی تھی۔ آف کورس زارا تم منگیتر ہو میری۔ اور اب سے میرے ہر دکھ سکھ کی ساتھی بھی ۔ تم سے بات نہیں تم کروں گا تو اور کس سے کروں گا ۔ ہر روز وہ ہنسی۔ ہر روز اس نے یقین دلایا تھا۔
دونوں کے لبوں پر ایسی مسکراہٹ تھی ، جو آج سے پہلے اتنے سالوں میں زمین و آسمان نے کبھی نہ دیکھی تھی۔ پھر وہ انگلینڈ چلا گیا ۔ پی۔ ایچ۔ ڈی کرنے۔ چار سال کی مسافت تھی۔ وہ دن انگلیوں پہ گن گن کر کاٹتی ۔ وہ وعدے کے مطابق اس سے ہر روز ہی بات کرتا تھا ۔ مگر زارا کی تشفی نہ ہوتی ۔ دو سال میں اس کا ایم ایس سی مکمل ہو گیا اور انتظار مزید مشکل ہو گیا۔ پھر ساحر کے مشورے پر اس نے ایک پرائیویٹ فرم میں جاب کر لی۔ کیلنڈر سرخ نشانوں سے بھرتے گئے۔ وہ بیس سے چوبیس کی ہوگئی اور بالآخر چار سال مکمل ہو گئے ۔ زارا جیسے چار سال بعد زندہ ہوگی۔ اس کے انگ انگ سے وہی رنگ پھوٹنے لگے جو اس کی شخصیت کا خاصہ تھے۔ مسکراہٹ اس کے روم روم سے پھوٹتی اور آنکھوں کی چمک میں مزید اضافہ ہو گیا۔ گھر والے بھی اس کی شادی کی باتیں کرنے لگے۔ کز نز سب پوچھنے لگیں۔ زارا فرنیچر کیسا لوگی ؟ زرا ا لہنگا کیسا سوچا۔؟ زارا ساحر بھائی کیا پہنیں گے۔ وہ سوچتی، جواب دیتی، پھر سوچتی اور ہفتے ہفتے آنکھوں میں آنسو بھر آئے تو دل میں خیال آتا ۔ بس آنے ہی والا ہے ساحر – ہر روز ، ہر اک بات۔ اس کے سامنے وہ الگ ہی زارا ہوتی ، بے وجه ، بلا تکان بولتی ہوئی زارا۔ بغیر سوچے سمجھے کچھ بھی بولنے والی زارا۔ اور وہ بھی اس کی باتوں کا برا نہ مانتا۔ وہ دونوں پاس نہ ہو کر بھی ایک دوسرے کے پل پل سے واقف ہوتے تھے۔ اس کی جاننے والیاں اس کو رشک کی نگاہ سے دیکھیتں تو اس کا دل تفاخر سے بھر جاتا۔ پورے خاندان میں کسی کا منگیتر میرے منگیتر جیسا نہیں ۔ یہ بات اس نے ویڈیو کال کے دوران ساحر سے بھی کر دی۔ اور وہ ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اپنی تعریف پر بس مسکرا دیا۔ زارا! اب جو میں بات کرنے والا ہوں، وہ دھیان سے سنو اور غور کرو اس پر۔ اس کے تھوڑے سیریس لہجے پہ زارا بھی کچھ سیریس ہوئی ۔ کیا بات ہے۔؟ یار ! تم جانتی ہو کہ میری پی۔ ایچ ڈی مکمل ہوگئ ہے۔ اور وہ رکا اور تمہیں معلوم ہی ہے کہ خالی خولی پی۔ ایچ۔ ڈی سے آج کل کچھ بھی نہیں بنتا۔ تو میرے کلاس فیلو یہاں مزید ایک کورس کر رہے ہیں ۔ پروفیشنل کورس ہے ، بہت فائدہ مند زارا ٹھٹک گئی ۔ وہ کیا کہنے جارہا تھا ۔ زارا! اس کا لہجہ بے حد نرم تھا مگر ۔ میں چاہتا ہوں ، تم میری بات سمجھو میں جانتا ہوں کہ تم میری واپسی کے لیے بہت ایکسائیڈ ہو مگر , مگر کیا ؟ زارا نے اس کی بات کاٹ دی۔ زارا تھوڑا پریکٹیکل ہو کے سوچو ٹیکنیکل کورس ہے اور پاکستان میں بہت کم لوگوں نے یہ ڈ گری لی ہوئی ہے۔ مجھے ہاتھوں ہاتھ لیا جائے گا۔ ہماری زندگی سنور جائے گی ۔ اور جو زندگی بگڑ رہی ہے، وہ ہماری نہیں ہے کیا ؟ وہ چٹخی ۔ میں تمہارے انتظار میں ایسے گل رہی ہوں جیسے جیسے کوئی نمک کا ٹکڑا پانی میں گھلتا جاتا ہے اور ختم ہوتا جاتا ہے۔ مجھے اور مت آزماؤ ۔ زارا ! صرف چار سال کی بات ہے۔ پلیز سمجھنے کی کوشش کرو۔ وہ تھوڑا سا چڑ گیا تھا۔ ہمیشہ جذباتی ہو کہ مت سوچا کرو۔ اور زارا اس سے کہ نہیں پائی ۔ تمہارے ساتھ تھا ہی جذبات کا رشتہ۔ پریکٹیکل تعلق تو بہت سوں سے ہوتا ہے۔ خاص تو وہ ہوتا ہے جس سے جذباتی تعلق ہی ہو۔ تو پھر کیسے نکالوں جذبات کو بیچ سے۔ زارا ضد پر اڑ گئی۔
ساحر نے ہر دلیل دی، پیار سے غصے سے، ہر طرح سمجھانا چاہا پر زارا کی ایک ہی بات ۔ دونوں میں زبردست لڑائی ہوئی۔ دونوں ہی اپنی اپنی بات سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہ تھے اور نہ ہی اپنی بات ایک دوسرے کو سمجھا پارہے تھے۔ بات دھیرے دھیرے دونوں کے گھر والوں کو بھی پتا چل گئی۔ سب لوگ زارا کے موقف کے حامی تھے اور ساحر سے واپسی کا تقاضا کر رہے تھے۔ زارا کی ان دنوں ساحر سے بات بالکل بندتھی ۔ وہ نہ اسے کال کرتا ، وہ نہ اٹھاتی، میسج کرتا ، وہ نہ دیکھتی ۔ ساحر نے تنگ آکر گھر کے نمبر پر بھی فون کر کی زارا سے بات کرانے کا کہا مگر زارا نے صاف انکار کر دیا۔ پھر ایک دوپہر وہ آفس میں تھی تو خالہ نے کال کر کے اسے آفس سے سیدھا اپنے گھر آنے کا کہا۔ زارا کچھ سوچتی ہوئی ان کے گھر چلی آئی۔ زارا بیٹا تم دونوں نے یہ کیا مسئلہ بنایا ہوا ہے، ادھر وہ نہیں مان رہا، ادھر تم اڑی ہوئی ہو۔ بیٹا تھوڑی سمجھ داری سے کام لو۔ اتنی چھوٹی سی بات کو اس قدر نہیں کھینچتے کہ تعلق میں دراڑ پڑنے لگے۔ خالہ نرم لہجے میں اسے سمجھانے لگیں۔ میں کیا کروں خالہ ۔ آپ ہی بتائیے۔ اگر وہ اڑ گیا ہے تو تم ہی مان جاؤ بیٹا ۔ چار سال کتنے ہوتے ہیں بیٹا۔ پہلے بھی تو کٹ گئے نا اب بھی کٹ جائیں گے۔ اور وہ پھر صرف اپنے بارے میں ہی تو نہیں سوچ رہا، وہ تم دونوں کی بات کرتا ہے۔ اور کہنا آسان ہے، چار سال کتنے ہوتے ہیں، کاٹنے والوں کو معلوم ہے کہ یہ کتنے ہوتے ہیں ! اور پھر اب کچھ ہو بھی نہیں سکتا ۔ خالہ نے بات جاری رکھی ۔ اس نے فیس جمع کرادی ہے بیٹا، داخلہ لے لیا ہے، ویزا آگے بڑھوا لیا ہے۔ اب وہ کیسے واپس اے ۔ زارا کے دل کو دھکا لگا۔ اگر وہ سمجھتی تھی کہ اب ہر فیصلے میں وہ آدھے آدھے شریک ہیں تو ساحر نے یہ خیال غلط ثابت کر دیا تھا۔ وہ خاموشی سے گھر آگئی اور سب سے کہہ دیا ساحر پر مزید دباؤ نہ ڈالا جائے اور یہ کہ اس بات کو یہیں ختم کر دیا جائے۔ چند دنوں میں سب نارمل ہو گیا ۔ وہ لمبی لمبی ٹیلی فونک باتیں مگر زارا نارمل نہ ہوئی اس کو ہر رات پورے دن کی روداد سنانا ۔ سب ختم ہو گیا۔ اب وہ اس سے صرف رسمی باتیں کرتی اور ایک دو منٹ بعد فون رکھ دیتی اور وہ سوچتا شاید وہ ناراض ہے، چند دنوں میں خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔ مگر کچھ ٹھیک نہ ہو سکا۔ زارا کے اندر کی چنگاریاں دھیرے دھیرے لو دینے لگیں۔ کچھ ہولے ہولے اس کے دل کو اندر سے کاٹنے لگا۔ ان چار سالوں میں اس کی ہم عمر کزنز ، دوستیں ، سب بیاہی گئی تھیں اور جو کبھی اس کو رشک سے دیکھتی تھیں، مزید چار سالوں کا سن کر اب اس کو ترس سے دیکھنے لگیں۔ پھر ایک دن خالہ اور عاصم ( ساحر کا چھوٹا بھائی ) مٹھائی کا ٹو کرا اٹھائے گھر آئے۔ خوشی کی خبر تھی۔ انہوں نے زارا کو ساتھ لپٹا لیا۔ ساحر کہہ رہا تھا، زارا ناراض ہے اسے گھر جا کر خود بتائیں تو اس لیے آئی ہوں میں اپنی بہو کے پاس۔ انہوں نے ہنستے ہوئے اس کی ٹھوڑی دبائی ۔ کیا بات ہے آپا! آپ بتا بھی دیں۔ امی ، جو باورچی خانے سے آرہی تھیں ، ہاتھ پونچھتے ہوئے پوچھا۔ ارے نسیمہ بس سمجھو، دونوں بچوں کی زندگی سنور گئی ۔ تم چلو، اندر بیٹھ کر بتاتی ہوں ۔ پھر ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر انہوں نے اطلاع دی کہ ساحر کا ملتان کی ایک کمپنی سے معاہدہ ہو گیا ہے اور یہ کہ وہ جیسے ہی واپس آئے گا، کمینی والے اسے فورا ہائیر کر لیں گے۔ سیلری پیکیج ٹھیک ٹھاک تھا اور دیگر مراعات اس کے علاوہ تھیں۔ دیکھا، یہ ہوتا ہے ایسے کورس کرنے کا نتیجہ ۔ ساحر بتا رہا تھا کہ پورے ملتان میں صرف چار آدمی ہیں جنہوں نے۔ یہ کورس کیا ہوا ہے اور اب پانچواں وہ ہے۔ ایسے ہی تو نہیں لوگ ہاتھوں ہاتھ لے رہے اسے۔ زارا چپ چاپ سر جھکائے اپنے خالی ہاتھ دیکھنے میں مصروف تھی لیکن آپا ملتان میں جاب ۔ پھر تو وہ رہائش بھی وہیں کرے گا۔ ارے نسیمہ رہائش کا سارا خرچہ وہ اٹھائیں گے۔ سب کچھ دیں گے وہ بس جہاں جہاں کمپنی بھیجے گی، وہاں وہاں جائے گا وہ اور زارا وہ کدھر رہے گی ؟ ارے زارا تو ہماری بیٹی ہے۔ ہمارے گھر میں ہی رہے گی، وہ ہر ہفتے آیا کرے گا گھر ۔ خالہ جس خبر کو خوش خبری قرار دے رہی تھیں، زارا کو جانے کیوں کانٹے کی طرح چبھی۔
فضا میں گھٹن بڑھنے لگی تو وہ اٹھ کر باہر لان میں آگئی۔ وہاں مستقیم کھڑا تھا ۔ السلام علیکم زارا ! کیا حال ہے۔؟ میں ٹھیک ہوں ۔ تم سناؤ۔ الحمد للہ۔ اچھا یہ دوائیاں پکڑو اور چیک کرلو کہ سب ٹھیک ہیں نا ۔ زارا نے شاپر تھام لیا اور دوائیوں کا جائزہ لینے گئی۔ وہ لوگ عرصے سے ان کے ہمسائے تھے۔ امی اکثر اسے چھوٹے چھوٹے کام بتا دیا کرتی تھیں۔ زارا کی طرح مستقیم بھی اپنے والدین کا اکلوتا تھا۔ اس نے حال ہی میں ایم فل مکمل کیا تھا۔ سب ٹھیک ہیں ۔ مجھے لگ رہا ہے، تمہاری ساس آئی ہوئی ہیں ۔ مستقیم نے اندازہ لگایا۔ شادی کی ڈیٹ ویٹ تو نہیں فکس ہو رہی ۔ ا بھی ایسا کوئی سین نہیں ہے۔ ؟ زارا کا لہجہ تھوڑا روکھا تھا۔ ساحر بھائی نہیں آ رہے واپس ۔؟ نہیں ۔ وہ اب اس موضوع پر زیادہ نہیں بولتی تھی۔ رات کو خالہ کی باتیں اس کے دماغ میں گونجنے لگیں۔ پہلے انتظار، بعد میں بھی انتظار کیوں کرتے ہیں لڑکے منگنیاں۔ اگر انہیں شادی کی جلدی نہیں ہوئی تو ۔ کیوں لگاتے ہیں لڑکیوں کو انتظار کی سولی پر خود دنیا – جہان کی سیر کرتے ہیں، اپنے خواب پورے کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ اپنے پیچھے کوئی ایسا چھوڑ جائیں جو روز انہیں یاد کرلے، ان کی واپسی کے لیے دعا کرے کیوں؟ – رات کے تین بجے جاکے زارا کے کمرے کا بلب بجھا۔ صبح وہ ناشتے کے لیے باہر آئی، نہ آفس گئی۔ امی پریشان ہو کر کمرے میں گئیں تو وہ بخار میں تپ رہی تھی لیکن ڈاکٹر کے پاس جانے سے انکار کر دیا۔ بخار نے شام تک زور پکڑ لیا۔ لیکن زارا ضد یہ اڑی رہی۔ مجبوراً مستقیم کو کہ کرڈا کٹر کو گھر بلایا اور دوائی کی۔ دودن میں زارا نچڑ کر رہ گئی۔ خبر ساحر کو بھی پہنچ گئی تھی اور اس نے زارا کو لا تعداد کالز کیں مگر زارا نے کسی ایک کا بھی جواب نہ دیا۔ مستقیم مستقیم ! اس شام جب مستقیم اس کی عیادت کرنے آیا ہوا تھا اور سیاست اور موسم پہ گفتگو جاری تھی، زارا نے اسے پکارا۔ اگر تمہیں کوئی انگلینڈ کا فوری ویزا دے اور کہے کہ آکر پی ایچ ڈی کر لو تو کیا تم جا ؤ گے ؟ مستقیم نے اچنبھے سے اسے دیکھا تم کیوں پوچھ رہی ہو ۔؟ ویسے ہی ۔ اس نے گہری سانس لی اور کچھ سوچ کر گویا ہوا ۔ میں زارا ۔ اس معاملے میں تھوڑی مختلف سوچ رکھتا ہوں۔ میں باہر جانے کے بجائے اپنے ماں ، باپ کے ساتھ رہنے کو ترجیح دوں گا۔ تو کیا تم زندگی میں کامیاب انسان نہیں بنا چاہتے ؟ اسے جیسے یقین نہ آیا۔ شاید دنیا کے لیے میں کامیاب نہ بن پاؤں زارا مگر میرے کے لیے کامیابی کی ڈیفی نیشن کچھ اور ہے۔ اور وہ کیا ہے؟
انسان ڈگریوں کا ڈھیر لگا لیتا ہے۔ اچھی گاڑی، اچھا بینک بیلنس رکھ لینے سے کامیاب نہیں ہو جاتے زارا۔ انسان نیچرل وے میں زندگی گزارنے سے کامیاب ہوتے ہیں۔ تو کیا ایک ایسا انسان جس نے دن رات محنت کی ہو اور ایک اعلیٰ مستقبل حاصل کر لیا ہو، وہ نیچرل وے میں زندگی نہیں گزارتا ؟“ قدرت نے سب چیزوں کے لیے وقت مقرر کیا ہوا ہے۔ بیس سال کی عمر تک ایک بچے کو اس کے ماں، باپ بھر پور توجہ دیتے ہیں ۔ ایک بھر پور فیملی ۔ ایسے لوگ جو اس کی ہر ٹینشن کو اپنی ٹینشن سمجھتے ہیں ۔ مگر نو جوان اپنے کیریئر ، اپنے مستقبل کے لیے، ان ہی سالوں میں اپنے گھر والوں سے دور ہونے لگتے ہیں۔ میں نے بڑے لوگ دیکھتے ہیں، میرے کلاس فیلوز جو اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے گھر سے دور ہو گئے۔ ایک اچھا مستقبل بنانے کے لیے۔ تم مجھے بتاؤ زارا کہ اگر انسان اکیلا اس دنیا میں رہتا تو کیا یہ سارے جھنجٹ ہوتے؟ کبھی بھی نہیں۔ انسان خود سے زیادہ دوسروں کے لیے کماتا ہے۔ اپنے ماں، باپ کے لیے، اپنے بچوں کے لیے لیکن آخر میں، جب وہ یہ سب حاصل کر چکا ہوتا ہے تو وہ لوگ بہت دور جا چکے ہوتے ہیں جن کے لیے، اس نے اتنی مشقت کی ہوتی ہے۔ وہ حساسیت کے عالم میں بول رہا تھا۔ اور زارا جھٹکے سے سیدھی ہوئی مستقیم ! مجھ سے شادی کرو گے؟
☆☆☆
خاندان میں بھونچال آگیا۔ جس نے سنا انگلیاں دانتوں میں داب لیں ۔ زارا نے ساحر سے شادی سے انکار کر دیا ہے۔ یہ کیسے ہوا ؟ آخر زارا کو اس پاگل پن کی کیسے سوجھی ؟ جتنے منہ اتنی باتیں۔ لوگ اپنے اپنے قیافے لگا رہے تھے۔ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ زارا اور مستقیم کا آپس میں چکر چل رہا تھا اور اسی لیے زارا نے ساحر بے چارے کو ٹیم سے ناک آؤٹ کر دیا ہے۔ اورگھر میں زارا اپنے ماں، باپ کے سامنے کھڑی تھی۔کہوں تو ہے حیا کہلاؤں۔ نہ کہوں تو ماری جاؤں۔ میری چھوٹی سی تکلیف پہ تڑپ اٹھنے والے میرے ماں، باپ کیسے نہ سمجھ پائے کہ میں کسی ذہنی اذیت کا شکار ہوں۔ اس کے آنسو اس کے گالوں پہ بہنے لگے۔ اکلوتی ہونے کی وجہ سے کسی بھی چیز کے لیے کبھی انتظار نہ کرنے والی زارا نے چار سال اپنے منگیتر کا انتظار کیا کیا یہ عام سی بات تھی؟ کیا ویسی ہی جیسی سب کیے لڑکیوں کے لیے ہوتی ہے؟۔ امی ! کیا لگتا تھا آپ کو۔ زارا کو بہت سارا پیسہ خوش کر دے گا۔ زارا کو شوہر چاہیے تھا امی ! پیسہ بنانے والی مشین نہیں ۔ کیوں کے منگنی کر کے اگلے آٹھ سال وہ شادی کے بغیر رہ سکتا تھا ؟ کیوں لٹکایا ایک ایسی لڑکی کو انتظار کی سولی پہ جس نے اس کے نام کی انگوٹھی پہننے سے پہلے اس سے تا عمر انتظار کرنے کا وعدہ اور ساتھ رہنے کی منت نہیں کی تھی ۔ تیرا دماغ خراب ہو گیا ہے زارا۔ اتنا اچھا لڑکا بغیر کسی محنت کے مل گیا تو . ملتا ہی تو نہیں ہے امی وہ ۔ وہ حلق کے بل چیخی ۔ جیسے بچے کو چاند دکھادیا جاے اور کہ دیا جائے کہ یہ تمہارا ہے یا یا جیسے جیسے چکور ساری زندگی چاند تک پہنچنے کی کوشش میں ہر رات اڑ تا ر ہے، اور ہر صبح تھک ہار کر نیچے کر جائے ۔ بالکل ایسے ہی ہے میرا اور اس کا تعلق ۔ اتنی خامیاں تھیں، اس میں ۔ تو پہلے کیوں نہیں انکار کیا تھا ؟ اول تب معلوم ہی نہیں تھا ابی ۔ یہ تو اب پتا چلا ہے۔ مجھے ساحر سے شادی کرنی تھی امی! اس کے عہدے سے نہیں۔ مجھے ایسا شوہر نہیں چاہیے جو لاکھوں کما کر دے۔ مجھے تو ایسا چاہیے جو لاکھوں کے برابر توجہ دے۔ جسے ہزار کاموں میں بھی میرا خیال رہے۔ جو چاہے تھوڑے کم بھی کما لے مگر جب کسی دن ؟ میرا دل چاہے، تو اس وقت مجھے آئس کریم کھلانے لے جا سکے۔ جس کے انتظار میں رات کے آخری پہر تکیہ نہ بھیگے۔ جس سے کوئی بات کرنے کے لیے میں کسی واسطے کی محتاج نہ ہوں۔ جس کے ساتھ بیٹھ کر میں ہر رات ہردن کی کہانی بیان کروں۔ امی تھک کے جیسے کرسی پہ گری گئیں تو زارا ان کے پاس نیچے بیٹھ گئی اور ان کے گھٹنوں پہ ہاتھ رکھ لیے۔ مجھے وہ چاہیے امی ! جس کے لیے موسٹ امپورٹنٹ میں ہوں اور جو میرے پکارنے پہ دنیا کے دوسرے کونے سے بھی سب کچھ چھوڑ چھاڑ میرے پاس آسکے۔ بہت سے لوگوں کی نظر میں یہ زارا کا احمقانہ اور جذبات فیصلہ تھا اورغور کیا جاتا، اس کی اپنی امی تک اس سے ناراض تھیں مگر اس کے باپ نے اس کا ساتھ دیا اور مستقیم کا رشتہ قبول کر کے اگلے ہفتے ہی اس کا نکاح کر دیا۔ زارا نے تو جس چیز کا انتخاب کیا تھا وہ اس پر خوش تھی۔ مگر دور بیٹھا ساحر راتوں کو جانے کیوں بے چین ہو کر اٹھ جاتا تھا۔ اور دیر تک اپنے خسارے کا حساب لگاتا تھا۔
0 Comments