امی میں رفیعہ خالہ کی طرف جا رہی ہوں۔ شام تک لوٹ آؤں گی ۔ ابرش نے کچن میں جھانک کر مطلع کیا تو فوزیہ بیگم کی تیوری چڑھ گئی – یہ تم کیا روز کالج سے واپسی پہ سیر سپاٹوں پہ نکل جاتی ہو – پرسوں وقار ماموں کی طرف گئی تھیں، کل قبیلہ پھپھو کی طرف چلی گئیں، آج خالہ کی طرف جارہی ہو تو کل بشری چاچی کی طرف جانے کا پروگرام بن جائے گا ۔ آپ کو کیسے معلوم ہوا؟ کہ میں کل بشری چاچی کے گھر جاؤں گی ؟ اس نے معصومیت سے استفسار کیا تو فوزیہ بیگم سیخ پا ہوئیں۔ کیونکہ پچھلے کئی ہفتوں سے تمہاری یہی روٹین دیکھ رہی ہوں۔ ایسی لڑکی نہ دیکھی نہ سنی- کچن کے کاموں میں ماں کی مدد کرنے کی توفیق نہ ہوئی۔ یہی لچھن رہے تو اگلے گھر جا کر خوب ناک کٹواؤ گی ہماری – پھر کب بھیج رہی ہیں مجھے ؟ وہ پر سوچ اندازمیں بولی۔کہاں ؟اگلے گھر فوزیہ بیگم نے سرعت سے جوتا فائر کیا مگر ابرش برق رفتاری سے غائب ہو گئی وہ پیچھے دیر تک اسے کوستی رہیں۔
☆☆☆
رفیعہ خالہ کے گھر کے حالات آج کل کافی کشیدہ تھے ، ان کے میاں کی معمولی آمدنی میں مہینہ مشکل سے گزرتا تھا۔ سونے پہ سہاگہ ان کا چھوٹا بیٹا پیڑ سے گر کر بازو تڑوا بیٹھا تھا۔ ان کی ساس آتے جاتے رفیعہ خالہ کو باتیں سنا تیں کہ ان سے بچے نہیں سنبھا لے جاتے ۔فوزیہ بیگم بھی ہر ممکن طریقے سے بہن کی مدد کرنے کی کوشش کرتیں۔ اس دن بھی بھانجے کی مزاج پرسی کے لیے آئیں تو ابرش کے لان کے کئی ان سلے سوٹ ان کی بچیوں کے لیے لے آئیں۔ اس چکمیلی سہ پہر کو پسینے سے شرابور ابرش ان کے آنگن میں وارد ہوئی تو سامنے برآمدے میں طاوسی تخت پر براجمان رفیعہ خالہ کی ساس اسےدیکھتے ہی بڑ بڑانے لگیں۔اس گرمی میں بھی تمہیں اپنے گھر چین نہیں – ان کو اس کی وقت بے وقت آمد ناگوار گزرتی تھی۔ بجا فرمایا آپ نے … سارا سکون تو آپ کے گھر ہے ابرش نے ان کے پاس سوئےموسی کے گال چٹا چٹ چومے پھر ان کے ہاتھ سے شربت کا گلاس اچک کر چار پائی پہ جا بیٹھی۔ پیڈسٹل فین کا رخ بھی اپنی طرف کر لیا۔ انہوں نے ہکا بکا ہو کر اپنے خالی ہاتھوں کو دیکھا۔ ابھی انہوں نے ایک گھونٹ بھی نہیں لیا تھا۔ رفیعہ خالہ نے تنبیہی نظروں سے اپنی اس کم عقل بھانجی کو دیکھا پھر کچن میں دوبارہ ساس کے لیےشربت بنانے چلی گئیں۔لڑکی تہذیب کے دائرے میں رہا کرو۔میں تمہاری سہیلی نہیں ہوں ۔ انہوں نے گو شمالی کی۔ سہیلی نہیں ہیں تو بن جائیں ناں ۔ اس میں حرج ہی کیا ہے؟ میں نے سوچا کہ آپ کو خود سے تو کچھ پیش کرنے کی توفیق نہیں ہو گی خود ہی ہمت کر لوں۔ مگر آپ کا دل تو بہت چھوٹا ہے۔ یہ لیں پکڑیں اپنا گلاس ( گلاس تقریباً آدھا خالی ہو چکا تھا۔ پی لیں سوچیں جھوٹا پینے سے محبت بڑھتی ہے۔ وہ دل جلانے والی مسکراہٹ لبوں پہ سجا کر کچن کی سمت بڑھ گئی۔ تو یہ لڑکی ہے کہ آفت کی پڑیا کیسے قینچی کی طرح زبان چلاتی ہے۔ آفرین ہے اس کی ماں پہ جو اسے روز جھیلتی ہے۔ وہ تسبیح کے دانےگراتی اپنی بھڑاس نکالتی رہیں۔رفیعہ خالہ نے پہلے ساس کو شربت پیش کیا پھر کچن میں جا کر کریلے فرائی کرنے لگیں۔ ابرش کو آتا دیکھا تو خفگی سے ڈانٹنے لگیں۔ ابرش تم بہت فضول بولتی ہو۔ بزرگوں سے بات کرنے کا یہ کون سا طریقہ ہے؟ تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو آنٹی اسے سخت سناتیں ۔ وہ فوزیہ آپا کی وجہ سے تمہار ا لحاظ کر جاتی ہیں۔ خلاف معمول وہ خاموشی سے سنتی ان کی مدد کرنے لگ گئی۔ اچھا اخلاق اور نیک سیرتی ہر خوبی پر حاوی ہوتی ہے -بزرگوں سے بات کرتے ہوئے ادب واحترام کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہے تم کسی کی عزت نہیں کروگی تو تمہاری بھی کوئی عزت نہیں کرے گا-خالہ متانت سا بولتی چلی گئیں -پلیز خالہ نو لیکچر، اس نے پیشانی پر ان گنت لکیریں سجالیں -خالہ نے بغور اس کا جائزہ لیا۔ کاسنی اور پیچ دیدہ زیب کڑھائی سے مزین لان کے سوٹ میں وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی۔ ابھی پرسوں ہی ان کی دیورانی کہہ رہی تھی کہ ابرش کی من موہنی صورت دیکھ کر کوئی بھی اس کا گرویدہ ہو جائے مگر اس کی بڑوں کے سامنے بے تکا بولنے کی عادت اور بلا وجہ کی اچھل کود اس کی خوب صورتی کو عیب لگاتی ہے۔ مگر اسے کون سمجھائے؟نمک ذرا کم ڈالیے گا خواہ مخواہ بی پی ہائی ہوگا ۔ اس کی فضول گوئی پر خالہ نے اس کو گھوری سے نوازا اور اپنے کاموں میں مشغول ہو گئیں ۔ سارا وقت ان کا دماغ کھانے کے بعد شام کو اپنے گھر جانے کے لیےنقاب لینے لگی تو خالہ نے آواز دی۔ابرش کھانا کھا کر جانا -خالہ اگر میں لیٹ ہوئی تو آپ کی ہمشیرہ صاحبہ جوتوں سے میری خاطر تواضع کریں گی۔آپ کے ہاتھ کے بنے کریلے بھی مس نہیں کرنا چاہتی آپ مجھے پلیٹ میں ڈال دیں۔ میں گھر جا کر کھا لوں گی- پھر خود ہی کچن میں جاکر پلیٹ میں کریلوں کا پہاڑ بنا کر لے آئی۔ یہ سوچے بنا کر پیچھے بچ جانے والے کر یلے ان گھر کے افراد کے لیے ناکافی ہو سکتے تھے- رفیعہ خالہ نے اس کو دیکھا مگر مروت کے مارے چپ رہیں۔ صد شکر کہ ان کی ساس کا دھیان دوسری طرف تھا۔
☆☆☆
گندمی رنگت اور گھنگھریالے بالوں والے سر معاذ کی آنکھیں انہیں بہت پر کشش بنا دیتی تھیں۔ وہ کالج میں آتے ہی ہر دوسری لڑکی کے دل میں بلا تکلف قدم رنجہ فرما چکے تھے مگر انہیں استاد اور شاگرد کے رشتے کا تقدس عزیز تھا اس لیے حتی الامکان کوشش کرتے کہ اپنے کام سے کام رکھیں ۔بعض لسوڑا بنتی لڑکیوں کو تو انہوں نے اوائل دنوں میں بھی سیدھا کر دیا تھا مگر یہ ابرش آفتاب تھی جس نے ان کے دل میں شگاف کر دیا اسے دیکھتے ہی ان کے ارادے متزلزل ہونے لگتے ، ان کی نگاہوں کے پیام پڑھ کر وہ اپنی قسمت پہ نازاں تھی۔ وہ اپنے ہی خیالوں میں غلطاں بے سبب مسکرائے جارہی تھی جب فوزیہ بیگم کڑے تیوروں سے اس کے پاس آ کھڑی ہوئیں۔ ابرش ! یہ تم نے کیا حرکت کی ہے؟ ابرش کا دل اچھل کر حلق میں آگیا ۔ چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔کون سی حرکت اس نے تجاہل عارفانہ سے کام لیا- تم نے صدف سے بد تمیزی کی تمہاری حماقت کے سبب وہ زینش سے بھی ناراض ہے۔ وہ برافروختہ ہوئیں۔میں کچھ اور سمجھ رہی تھی اور یہ صدف کی وجہ سے مشتعل ہیں اس کی رکی ہوئی سانسیں بحال ہوئیں۔ امی میں جب بھی زینش آپی کے گھر جاتی ہوں ان کی نند صدف کے تقریبا در جن بھر بچے وہاں ہر وقت اودھم مچائے رکھتے ہیں۔ ادھر آپی صفائی کر رہی ہیں ادھر وہ چیزیں بکھیر رہے ہوتے ہیں۔ آپی سارا وقت انہیں سنبھالنے میں ہلکان ہوتی رہتی ہیں اوپر سے اتنے ندیدے اور چٹورے ہیں کہ جب دیکھو فریج میں گھسے بیٹھے ہیں۔ میں نے تو صرف آپی سے صرف اتنا کہا کہ جب بچے سنبھالے نہیں جاتے تو پیدا کیوں کرتی ہیں اور یہ کہ دوسروں کے گھر بھیجنے سے پہلے انہیں کچھ کھلا پلا دیا کریں وہ نان اسٹاپ بولتی جارہی تھی جب اڑتے ہوئے جوتے نے اس کا منہ بند کیا۔ شرم آنی چاہیے تمہیں۔صدف بیچاری بیمار تھی اس لیے بچوں کو ان کی نانی کے گھر بھیج دیتی تھی۔تم بچوں کے کھانے پینے پہ نظر رکھتی ہو۔ ہر بات منہ پہ کہنے والی نہیں ہوتی ۔ لڑکیوں کو اتنا منہ پھٹ اور خود سر نہیں ہونا چاہیے – تم کو ان کے گھریلو معاملات میں دخل دینے کی ضرورت نہیں تھی -وہ غصہ سے بولتی جارہی تھیں کہ ابرش کے اترے چہرے پہ نگاہ پڑتے ہی چند لمحوں کے لیے خاموش ہو گئیں پھر متانت سے اسے سمجھانے لگیں -کبھی تم نے سوچا کہ تمہاری دنیا کتنی محدود ہے؟ رشتہ داروں کے گھروں میں گھومنا، لگائی بجھائی کر کے چسکے لینا فیشن، میک اپ ، گوسپ اور بس -صحت مندانہ سرگرمیوں میں حصہ لو مطالعہ کرو، کوکنگ سیکھو، اسپورٹس میں حصہ لو، گارڈ نگ کرو پھر بھی فرصت مل جائے تو کوئی کورسز کرلو وہ کھسیانی ہو کر سنتی رہی۔ صدف کا چھوٹا بیٹا ہاسپٹل میں ایڈمٹ ہے۔ آج شام کو اس کی عیادت کے لیے جاؤں گی تم بھی ساتھ چلنا اور اپنے رویے کی معافی مانگ لینا اس نے اثبات میں سر ہلا دیا۔
☆☆☆
سینٹرل ملٹری ہاسپٹل کی چائلڈ وارڈ خسرہ کے مریضوں سے بھری ہوئی تھی ابرش نے صدف کو سرسری انداز میں “سوری” کہا پھر ادھر ادھر کا جائزہ لینے لگی -ساتھ والے خالی بیڈ پر ابھی ابھی ایک بچے کو لایا گیا تھا۔ بچے کو فٹس ( جھٹکے ) پڑ رہے تھے۔ بچے کی والدہ خاصی پر وقار اور خوش شکل خاتون پروقار تھیں ۔ وہ کچھ پڑھ کر بچے پہ پھونک رہی تھیں فوزیہ بیگم کے موبائل پہ کال آ رہی تھی ، وہ موبائل مُھٹی میں دبائے وارڈ سے باہر نکل گئیں۔ فوزیہ بیگم صدف کے لیے بریانی بنا کر لائی تھیں۔صدف نے دو پلیٹوں میں بریالی نکالی اور ایک پلیٹ اس خاتون کی سمت بڑھا دی جو انہوں نے رسماً انکار کرنے کے بعد تھام لی۔ صدف کھانا کھانے کے ساتھ موبائل میں مصروف تھی۔ ابرش سخت کبیدہ خاطر نظر آرہی تھی۔ معاً اس کی نگاہ اس خاتون پر پڑی، وہ اشارے سے اسے بلا رہی ہیں ۔ ابرش ان کے پاس چلی گئی۔ بیٹا! آپ سے ایک بات پوچھنی تھی یہ جنہوں نے مجھے بریانی دی ہے یہ کہیں غیر مسلم تو نہیں ہیں؟ میں ان کو جانتی نہیں ان کے ہاتھ سے لے کر کھانا شروع کر دیا۔ ابرش نے بے ساختہ ہنسی کو بمشکل روکا۔صدف آپی! آپ ، یہودی یا ہندو تو نہیں ہیں؟“ اس نے بآواز بلند صدف کو پکارا ارد گر د سب ہی لوگ متوجہ ہوگئے۔کیا بد تمیزی ہے؟“ صدف کے سر پہ لگی تلوؤں پہ بھجی ۔ آنٹی صاحبہ الجھن میں ہیں کہ آپ سے لی ہوئی بریانی کھا کر ان کو گناہ تو نہیں ملے گا۔ حالانکہ اس وقت ان کو یہ سوچنا چاہیے کہ آپ کے بچے کے خسرہ کے جراثیم ان کے بچے میں داخل نہ ہو جا ئیں ۔ مسکرا کر بولتے ہوئے وہ زہر لگ رہی تھی۔ آنٹی کا رنگ بھی اڑا۔ تو بہ ہے آپ کو یا کسی اور کو میرے مذہب کے بارے میں بات کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ اتنا ہی شک ہو رہا تھا تو نہ کھائیں۔ نیکی کا تو زمانہ ہی نہیں ہے جب پیش کی جانے والی چیز حلال ہے تو کھانے میں کیا قباحت ہے؟ مگر نہ جی سب کو یہ بتانا مقصود ہوتا ہے کہ ہم تو بڑے ہی سچے مسلم ہیں۔ صد ف ان کی عمر کا لحاظ کیے بنا انہیں سخت سنانے لگی۔ ارد گرد دوسری خواتین بھی انہیں برا بھلا کہنے لگیں۔ ابرش تو جیسے بھس میں تیلی پھینک کر تماشے سے محفوظ ہو رہی تھی۔ وہ آنٹی اب ابرش کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔ فوزیہ بیگم فون پر بات کر کے واپس آئیں تو صدف کا منہ پھولا ہوا تھا۔ ابرش کے کارنا مے سے بے خبر عجلت میں صدف کو خدا حافظ کہہ کر جانے لگیں۔مگر ان کی معیت میں گھر لوٹتی ابرش نے محسوس کیا کہ اس خاتون کی نگا ہیں اس کے چہرے پہ گڑی ہوئی تھیں
☆☆☆
وہ لائبریری سے نکل رہی تھی جب سر معاذ نے اسے پکارا اور بنا کسی تمہید کے اپنا مدعا بیان کیا۔ ان کے پیرنٹس ابراڈ میں تھے وہ اپنی آپی کے گھر رہتے تھے اور آج شام اپنی آپی کے ہمراہ ابرش کے گھر کسی خاص مقصد سے آنا چاہتے تھے۔ ان کتھئی آنکھوں میں ڈوب کر اس کے دل کی دھڑکنیں اعتدال پہ نہ رہیں وہ اٹھتے کہیں پڑتے کہیں قدموں سے گھر پہنچی تو نئی فکر نے آن گھیرا۔ اتنی اہم بات فوزیہ بیگم سے چھپانا بھی نہیں چاہتی تھی مگر بتانے میں ہچکچاہٹ اور شرم مانع تھی۔ اس ادھیڑ پن میں وہ کچن میں جا کر ان کی ہیلپ کروانے لگی تو وہ چونکیں۔ ابرش ! طبیعت تو ٹھیک ہے؟ امی ! آج کچھ ایکسٹرا ڈشز بنالیں۔ شاید کوئی آجائے۔ کس نے آنا ہے؟اس نے پوری کہانی سنائی۔ اس نے امی کے ساتھ مل کر رول ، چکن کے کٹلس کے ساتھ ڈونٹس اور میکرونی اور میٹھے میں پڈنگ تیار کی اور خود نہانے چلی گئی۔ بے بی پنک کلر کے دیدہ زیب کڑھائی سوٹ میں وہ کتنی پیاری لگ رہی تھی میک اپ کے نام پر اس نے صرف کا جل اور لپ گلوس لگایا تھا۔ کافی دیر آئینے کے سامنے کھڑی خود کو دیکھتی رہی پھر کچھ سوچ کر دو پٹا سر پہ لیا۔ وہ سر معاذ کی آپی کو پوری طرح متاثر کرنا چاہتی تھی -باہر سے باتوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ فوزیہ بیگم انہیں ڈرائنگ روم میں بٹھا رہی تھیں۔ ابرش نے برانڈڈ پر فیوم کا بے دریغ چھڑکاؤ کیا۔ فوزیہ نے بیگم کے بلانے پردہ جھجکتے ہوئے ڈرائنگ روم میں گئی۔السلام علیکم ! اسے دیکھتے ہی ان خاتون کو گویا سانپ سونگھ گیا۔ یہ یہ ابرش ہے؟ ان کی آنکھیں تحیر سے پھیلیں۔ جی آپی کتھئی آنکھوں میں اس کے لیے ستائش تھی۔معاذ ان دونوں کا گم صم انداز دیکھ کر چونکا کیا ہوا؟ معاذ! اس دن ہاسپٹل میں ملنے والی جس لڑکی کے بارے میں نے تمہیں بتایا تھا وہ لڑکی یہی ہے۔ معاذ کو دھچکا لگا۔ اب وہ فوزیہ بیگم کو ابرش کی کارگزاری کی تفصیل بتا رہی تھیں ۔ ابرش کا رنگ کورے لٹھے کی مانند سفید ہو چکا تھا۔ معاذ کا سنجیدہ انداز اس کا دل دہلا رہا تھا۔ مانا کہ کسی کے مذہب کے بارے میں بات نہیں کرنی چاہئے مگر میں نے ایک سوال ہی تو پوچھا تھا ؟ ابرش اسی وقت ٹوک دیتی یا مناسب جواب دے کر ٹال دیتی مگر نہیں ابرش نے بات بڑھا چڑھا کر بیان کی – آئی ایم ساری ہمارا مقصد آپ کی دل آزاری نہیں ہے مگر ہم آنکھوں دیکھی مکھی نہیں نگل سکتے۔ میرا بھائی تو اس کی بھولی صورت پہ فدا تھا صدشکر کہ اصلیت وقت پر آشکار ہوگئی ۔ دونوں بہن بھائی عجلت میں خدا حافظ کہ کر نکل گئے سامنے ٹیبل پہ فوڈ آئٹمز ان چھوئے پڑے تھے۔فوزیہ بیگم نے یاسیت سے ابر ش کو دیکھا انہوں نے لاڈ پیارسے بھی سمجھایا تھا سختی کر کے بھی دیکھ لیا تھا۔ ابرش نے اپنی خو نہ چھوڑی تھی۔ خالہ، پھوپھی چچی سب کو ہی اس سے شکایتیں تھیں مگر ان باریکیوں کو اس نے درخور اعتنا نہ سمجھا تھا۔ دوسروں کو زچ کر کے لطف اٹھاتے ہوئے اسے اندازہ نہ تھا اس کی ان حرکتوں کے سبب جان سے پیارا اسے مسترد کر کے ہمیشہ کے لیے اس کی زندگی سے چلا جائے گا۔ وہ خود احتسابی کے عمل سے گزر رہی تھی، پشیمان تھی۔ سوری امی ! میری وجہ سے آپ کو شرمسار ہونا پڑا ۔ اس شرمندہ نظروں سے ان کی طرف دیکھا۔ ابرش میں ماں ہوں ہر خطا معاف کر دوں گی مگر دنیا معاف نہیں کرتی ۔ وہ گلو گیر ہوئیں۔ میں کوشش کروں گی کہ آئندہ کسی کو شکایت کا موقع نہ دوں ۔ اس نے ان کے ہاتھ تھامے ۔سچ ہے کہ کچھ لوگ ٹھو کر کھائے بنا نہیں سنبھلتے دیر سے ہی اسے عقل آ گئی تھی۔
☆☆
0 Comments