Ad Code

beti ki maa na banti urdu story







جیسے ہی ابو گھر میں داخل ہوئے ، دروازے سے ہی اسے آواز لگائی اور اس نے جلدی سے نکل کر ان کے ہاتھ سے شاپر تھام لئے ۔ وہ صحن میں لگے واش بیسن پر منہ ہاتھ دھونے لگے۔ ابو کھانا لگا دوں۔ وہ پھلوں کو شاپر سے نکال کر باسکٹ میں رکھتے ہوئے بولی۔ ہاں بیٹا لگا دو بھوک بھی بڑی زور سے لگی ہے اور نور دین نظر نہیں آرہا۔ نوردین ان چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا۔ نام سے لگتا تھا کہ کوئی بڑی عمر کا آدمی ہو گا، نام رکھتے ہوئے امی کی ایک اپنی ہی سوچ تھی۔ بہنوں نے کتنے ہی پیارے پیارے نام سوچے تھے مگر انہوں نے صاف کہہ دیا میرے بیٹے کا نام نور دین ہی ہوگا۔ اللہ چاہے گا تو میرا بچہ دین کی روشنی پھیلانے کا کام کرے گا انشاء اللہ، اپنے نور دین کو عالم بناؤں گی، امی کی خواہش دیکھتے ہوئے وہ سب بھی راضی ہو گئے۔ اس کے مدرسے سے فون آیا تھا کسی دوسرے شہر سے مفتی صاحب تقریر کے لئے آرہے ہیں۔ اس لئے جلدی کھانا کھا کر اپنے دوست کے ساتھ چلا گیا۔ چلو اچھا ہے، نیکی کی بات سننے سے بھی طبیعت نیکی کی طرف مائل رہتی ہے۔ ابو مطمئن ہو گئے۔ اس نے جلدی جلدی کھانا لگایا اور تینوں خاموشی سے کھانا کھانے لگے، کھانے سے فارغ ہوئے تو ابو نے چائے کی فرمائش کر دی۔ وہ برتن سمیٹ کر چائے بنانے چل دی اور امی ان سے دن بھر کی مصروفیت پوچھنے لگیں۔ ابو نے جیب سے چند ہزار کے نوٹ نکال کرامی کو تھمائے، جو انہوں نے بسم اللہ پڑھ کر تھام لئے۔ کام تو ٹھیک چل رہا ہے ناں غفار۔ رب کا بڑا کرم ہے اپنی بیٹیوں کے نصیب سے اس نے رزق کے دروازے کھول رکھے ہیں ہم پر۔ وہ عشنا کے ہاتھ سے چائے کا کپ لیتے ہوئے بولے۔ بیٹا جاؤ اپنی امی کے لئے پھل کاٹ کر لے آؤ۔ وہ جانتے تھے کہ امی چائے نہیں پیتیں۔ وہ جلدی سے پھل کاٹنے کے لئے اٹھی، تو امی نے ہاتھ کے اشارے سے منع کر دیا۔ ابھی میرا جی نہیں چاہ رہا۔ اری نیک بخت کھالو، بعد میں بھی تو گلا کرکھاؤ گی۔ اور یہ بات سنتے ہی امی کو پتنگے لگ گئے۔ ہاں گلا کر ہی کھاؤں گی، ساری عمر تمہاری ماں نے مجھے گلے سڑے پھل ہی دیئے کھانے کو، تو اب یہ تازہ پھل میرے حلق سے کیسے اتریں گے۔ امی کا دکھڑا شروع ہوگیا اور ابو ہنستے ہوئے بولے۔ اب تو بخش دو ہماری مرحومہ ماں کو، جب تم ساس بنو گی تو دیکھوں گا کتنی اپنائیت اور چاہت کا سلوک کروگی اپنی بہو کے ساتھ۔ ہاں زندہ رہی تو دکھاؤں گی بیٹیوں سے بڑھ کر چاہوں گی، صرف زبانی کلامی نہیں کہہ رہی عملاً کر کے دکھاؤں گی۔ امی سینے پر ہاتھ مار کے بولیں۔ تمہاری ماں کی طرح کولہو کا بیل بنا کر نہ رکھوں گی آزادی سے جینے کا حق دوں گی۔ ابو کے ماتھے پر ہلکی سی شکنیں ابھر آئیں۔ اس سے پہلے کہ بحث طول پکڑتی اس نے ابو کو عشاء کی اذان کی طرف متوجہ کیا اور وہ کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے وضو کرنے چل دیئے اس کی ہنسی نکل گئی، ان دونوں کے درمیان ہلکی پھلکی نوک جھونک چلتی ہی رہتی تھی مگر دونوں ایک دوسرے کا خیال بھی بہت رکھتے تھے۔
☆☆☆

ہاں بھئی آج کی شاپنگ نے تو بہت تھکا دیا ۔ حرا باجی نے شاپر کارپٹ پر پھینکے اور خود صوفے پر دراز ہوگئیں۔ عشنا جلدی سے بہن کے لیے پانی لے آؤ۔ امی لاؤنج سے ہی پکاریں اور وہ جھٹ سے پانی کا گلاس لے آئی۔ تھکی ہوئی تو میں بھی ہوں حرا باجی … مگر آپ تو ایسے ظاہر کر رہی ہیں جیسے اکیلی شا پنگ کر کے آئی ہیں۔ حرا سے چھوٹی نمرا نے شکوہ کیا۔ ارے میری بہن تم تو جوان چھڑی چھانٹ ہو، ابھی سے تمہیں کیوں تھکن ستانے لگی ۔ میں چار بچوں کی ماں، بھلا مجھ میں اب تمہاری جیسی سکت کہاں۔ وہ پانی کا گلاس عشنا کی طرف بڑھاتے ہوئے بولیں۔ نمرا کی شادی کو تین سال ہو گئے تھے اور ابھی کوئی بچہ بھی نہ تھا۔ صحیح تو کہہ رہی ہے سارا دن گھر کے کاموں میں نوکروں کی طرح جتی رہتی ہے، جوان نندیں ہل کر پانی تک نہیں پیتیں۔ میری پھول سی بچی کملا کر رہ گئی ۔ اس کی محبت امڈ آئی اور فوراً ان کا سر دبانے لگیں۔ حرا باجی فوراً ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں تھام لئے۔ گناہگارنہ کیا کریں آپ چھوڑیں یہ دیکھیں کتنے خوبصورت سوٹ خریدے ہیں عشنا کے سسرال والوں کے لیے۔ وہ ایک ایک کر کے سوٹ نکال کر دکھانے لگیں وہ بھی اشتیاق سے دیکھنے لگی سوٹ واقعی بہت خوبصورت تھے۔ یہ دیکھیں ساس کا جوڑا کتنا پیارا ہے کیسی نفیس ایمبرائیڈری ہوئی ہے۔ نمرا نے ایک سوٹ نکال کرامی کے ہاتھ میں تھمایا وہ جوڑا ہاتھ میں لے کر خاموش سی ہو گئیں۔ کیا بات ہے امی سوٹ پسند نہیں آیا؟ ارے نہیں بیٹا سوٹ سارے ہی بہت پیارے ہیں ، بس اللہ کرے اس کے سسرال والوں کو پسند آجائیں۔ انہوں نے عشنا کی طرف دیکھا۔ ارے واہ کیوں پسند نہیں آئیں گے کوئی بھی سوٹ تین ساڑھے تین ہزار سے کم کا نہیں ہے، رنگ، ڈیزائن، کڑھائی ہر چیز منفرد ہے۔ نمرا تنک کر بولی۔ چلو آج تم دونوں بہنوں نے یہ کام بھی مکمل کر دیا۔ اللہ تمہیں اپنے گھروں میں آباد اور خوش رکھے۔ اللہ میری عشنا کو بھی ڈھیر ساری خوشیاں دئے۔ امی آبدیدہ ہوگئیں۔ آپ خدشات کو ذہن سے جھٹک دیں بس اللہ سے اس کے اچھے نصیب کی دعا کیا کریں۔ ماؤں کی دعا ئیں اللہ ضرور سنتا ہے۔ حرا باجی نے ان کو تسلی دی۔ عشنا چلو اٹھو جلدی سے کھانا لگاؤ قسم سے پیٹ میں چوہوں کی بڑی زبردست ریس شروع ہو چکی ہے۔ نمرا نے عشنا کو ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور دونوں بہنیں کھانا لگانے چل دیں۔
☆☆☆



شادی کی ڈیٹ فکس ہوتے ہی تیاریاں بھی عروج پر پہنچ گئیں، تینوں بہنیں خوب دل سے اپنی سب سے چھوٹی لاڈلی بہن کی شادی کی تیاری کر رہی تھیں۔ وہ تھی ہی ایسی ہر ایک کا خیال رکھنے والی ہمدرد، پرخلوص، بھانجوں، بھانجیوں میں تو اس کی جان تھی۔ کوئی بھی بہن میکے آجاتی خوب خدمت کرتی ان کے بچے سنبھالتی اور وہ اسے دعائیں دیتے نہ تھکتی، بہنوئیوں کی بھی خوب دل سے عزت کرتی اور وہ تینوں بھی اس سے بہت خوش تھے۔ امی بار بارا سے اپنے ساتھ لپٹاتیں، نصیحت کرتیں صبر و شکر کے ساتھ سسرال میں رہنے کی تلقین کرتی اور وہ چپ چاپ ان کی باتیں سنتی رہتی۔ ماں باپ سے جدائی کا خیال اس کی آنکھوں کو پانیوں سے بھر دیتا اور چھوٹا بھائی نور دین وہ تو باقاعدہ اس کے گلے لگ کر رونا شروع کر دیتا۔ عشنا آپی میرا آپ کے بغیر دل کیسے لگے گا میرے کپڑے کون پریس کرے گا اور میرے دوستوں کو اتنے مزے مزے کے کھانے کون بنا کر کھلائے گا۔ ایسی باتیں سب کر وہ اداس ہو جاتی۔ تمہاری پڑھائی مکمل ہونے میں صرف دو سال باقی رہ گئے ہیں ماشاء اللہ پھر تو تم عالم دین بن جاؤ گے اور امی فوراً ہی تمہارے سر پر سہرا سجا دیں گی۔ بس پھر تنہائی ختم اور ہر سال بچوں کی انٹری شروع ، کیونکہ مولانا صاحب فیملی پلاننگ کے حق میں تو ہونے سے رہے۔ عروج نے اس کے شرارت سے بال بکھیرے تو وہ جھینپ گیا اور سب ہنس پڑے۔ اسی طرح ہنستے گاتے ، آنسو بہاتے وہ دن بھی آگیا۔ جب باپ کے گھر کی دہلیز پار کر کے اپنے مجازی خدا کے گھر کو رونق بخشی تھی۔ باپ کی کندھے بیٹی کی جدائی پر جھک گئے ، چہرے پر صدیوں کی تھکن اتر آئی۔ جیسے آج چوتھی بیٹی بھی وداع کر کے اپنا سب کچھ ہار دیا ہو ، نفع و نقصان کی پروا کیے بغیر کل جمع پونچھی لٹادی ہو۔ بھائی کی آنکھوں میں موتی چمکنے لگے۔ بہنوں کے ہاتھ اور ماں کے کانپتے لب مسلسل اس کی خوشیوں کے لئے دعا کر رہے تھے۔ اور وہ روتے سکتے ماں باپ کو چھوڑ کر بہتے آنسوؤں کے ساتھ اپنے اصل گھر کی طرف روزانہ ہوگئی۔ وہ بیاہ کر فیصل آباد جارہی تھی جو اس کے شہر سے چار گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ ارے بھئی فائزہ اسے کسی طرح چپ کراؤ مجھے تو خفقان ہونے لگا ہے۔ الله معاف کرے ماں باپ ایسے بلک رہے تھے، جیسے پہلی بار کسی بیٹی کو رخصت کیا ہو۔ انہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ اپنے چاروں فرضوں سے سبکدوش ہو گئے۔ بھائی ایک طرف اشکوں کی برسات لئے کھڑا ہے تو بہنوں کی آنکھوں سے ساون کی جھڑی لگی ہوئی ہے۔ تو یہ لگتا تھا کہ آنسوؤں کا سیلاب امڈ آیا ہو۔ قدرے ناگواری سے بولتی ساس نے ایسے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو اس کی ہچکیوں کو بریک لگ گئے اور باقی کا سفر خاموشی سے گزارنے پر مجبور ہو گئی مگر اب آنسواس کے دامن پر نہیں اس کے دل پر گر رہے تھے۔
☆☆☆



شادی کے ایک ماہ بعد ہی اسے اچھی طرح اندازہ ہو گیا تھا کہ ماؤں کے تجربات کچھ غلط نہیں ہوتے۔ واقعی سسرال میں ہر لمحہ کا نپتے ہوئے ہی گزرتا ہے کہ خدا جانے کب کسی بات پر قہر نازل ہو جائے۔ اس کی سسرال والوں نے منگنی کے عرصہ کے دوران جو شرافت و محبت کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا ایکدم ہی اتار کے دریا برد کر دیا۔ لگتا ہی نہ تھا کہ یہ وہی ساس نندیں ہیں، جو واری صدقے ہوتی تھیں۔ ان کے منہ سے باتیں کرتے پھول جھڑتے تھے۔ اور وہ ان کی مومنہ صورتیں دیکھ کر دل سے ہر خدشے کو جھٹک دیتی تھی اور تصور میں ایک مشفق ماں، پیار لٹاتی نندیں دیکھتی اور اپنی خوش بختی پر نازاں ہوتی مگر یہاں تو الٹی گنگا بہ رہی تھی۔ وہ کہتے ہیں ناں ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ان کے اس دوغلے پن اور منافقانہ رویے پر اس کا دل کڑھ کے رہ جاتا صبح سے شام تک کاموں میں ایسی غرق ہوتی کہ اپنا ہوش ہی نہ ہوتا۔ شوہر سے بھی شکوہ بیکار تھا کیونکہ اس نے پہلے ہی دن کہہ دیا تھا مجھے یہ ساس بہو کے جھگڑے سے ذرا دور ہی رکھنا۔ امی اور بہنوں کے فون آتے تو جلدی سے بات کر کے بند کر دیتی۔ اور وہ یہی شکوہ کرتیں کہ کبھی دو گھڑی فرصت سے بات بھی کر لیا کرو کیا بتاتی ان کو کہ فرصت ہو تو بات کروں ایک کے بعد ایک کام تیار ہوتا۔ ویسے بھی جب وہ فون سن رہی ہوتی نندیں دروازے سے کان لگائے کھڑی ہوتیں۔ ایسے حالات میں وہ ان سے کیا باتیں کرتیں تو ٹھیک تو ہے ناں گڑیا سب تیرے ساتھ صحیح رہ رہے ہیں ناں ایک دن حرا باجی نے پوچھ ہی لیا اور وہ جھٹ سے بولی۔ میں بہت خوش ہوں باجی سب میرا بہت خیال رکھتے ہیں۔ اس نے آنسوؤں کی نمی کو اپنے اندر اتارا۔ اللہ تمہیں خوش رکھئے وہ مطمئن سی ہو گئیں۔
☆☆☆



آج کل وہ امی کے گھر رہنے آئی ہوئی تھی اور ابو بھائی سب اس کا بے حد خیال رکھ رہے تھے۔ میکے آکر احساس ہو کہ آزادی کیا چیز ہوتی ہے۔ مرضی کی سانسیں کیسے لی جاتی ہیں۔ بہنیں ایک شہر میں ہونے کی وجہ سے روز ملنے آجاتیں اور گھر میں خوب رونق ہو جاتی۔ سچ بتانا عشنا سب کا رویہ تیرے ساتھ ٹھیک تو ہے۔ امی کھوجتی نظروں سے پوچھتیں تو وہ اثبات میں سر ہلا دیتی۔ تو اتنی کمزور کیوں ہوگئی ہے عدنان بیٹا تو تیرا خیال رکھتا ہے ناں۔ انہوں نے پھر سے سوال داغا۔ سب بہت اچھے ہیں عدنان بھی میرا خیال رکھتے ہیں بس آپ کی دوری مجھ سے برداشت نہیں ہوتی۔ اس نے ان کے ہاتھ پکڑ لئے اور امی نے فورا ہی ہو کر اس کا ماتھا چوم لیا۔ صبح سے اس کی طبیعت عجیب سی ہورہی تھی اور سر بھی چکرا رہا تھا۔ امی نے جب اس کی یہ کیفیت دیکھی تو فوراً حرا باجی کو فون کر کے بلا لیا اور ان کے ساتھ ڈاکٹر کی طرف روانہ کیا۔ وہیں ڈاکٹر کی زبانی یہ خوشخبری سننے کو ملی کہ وہ ماں کے رتبے پہ فائز ہونے والی ہے۔ شادی کے بعد جس خبر نے پہلی بار اس کی لبوں پہ مسکراہٹ کے پھول بکھیرے تھے۔ وہ یہی خبر تھی ، ماں بننا عورت کی اولین خواہش بھی ہوتی ہے۔ اور خوش نصیبی بھی، چند دن امی کے گھر رہنے کے بعد وہ عدنان کے ہمراہ اپنے گھر آگئی، ماں نے بے تحاشا چیزیں اور دعائیں دے کر رخصت کیا تھا، شوہر کو جب یہ خبر سنائی تو اچھا کہہ کر خاموش ہو گئے، نہ خوشی اور نہ ہی کوئی خوش آئند بات۔ ساس نندیں حتی کہ سسر نے بھی اس خبر پہ کوئی خاص تاثر نہیں دیا۔ اور وہ ان کے اس رویے پر حیران رہ گئی کہ دادا دادی بننے کی خوشی ان کے چہروں سے کیوں ظاہر نہیں ہوتی۔ اس خبر کے بعد بھی ان کے رویوں میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔ ساس بیماری کا بہانہ بنا کر لیٹ جاتیں ، نندوں کو ٹی وی ڈراموں سے فرصت نہ تھی۔ ویسے بھی ان کو کوئی کام کہہ دینا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مساوی تھا۔ اس کی طبیعت میں ہر وقت کسلمندی رہتی، نیند کا غلبہ رہتا مگر کیسا آرام اور کہاں کی نیند، ہاں اتنا فرق ضرور پڑا تھا کہ عدنان کچھ خیال کر لیتے تھے کبھی کبھار چوری چھپے کوئی کھانے کی چیز بھی لے آتے ۔ سرِعام تو بیوی کے لیے کچھ لانے کی اجازت نہ تھی ۔ دستر خوان ایک بار لگتا کسی کو بھوک ہے یا نہیں، کھانا ہے تو کھائے ، ورنہ بھاڑ میں جائے۔ کچن کو تالا لگا دیا جاتا جو کہ شام کوہی کھلتا اور اس گھٹیا پن پر حیران و پریشان کہ کیا سسرال میں کھانے پینے کی بھی آزادی چھن جاتی ہے، پیٹ بھر کر روٹی بھی نصیب نہیں ہوتی اور اس کی طبیعت ایسی ہو رہی تھی کہ جب کھانا سامنے ہوتا تو دیکھنے کو بھی دل نہ کرتا اور بعد میں بھوک ستاتی تو کچھ کھانے کونہ ملتا، شرمندگی سے خاموش رہتی۔ پیٹ میں بھوک سے بل پڑ جاتے۔ آج تو ڈھیٹ بن کر ساس سے کچن کی چابی مانگ لی جوناگواری سے ہاتھ میں اس طرح پکڑائی کہ وہ شرم سے زمین میں گڑ گئی، کچن کھول کر اس نے جلدی جلدی وہیں پر بڑے بڑے نوالے کھانے شروع کر دیئے ۔ شکر ہے ہاٹ پاٹ میں روٹی موجود تھی۔ وہ بری طرح کھانے میں مصروف تھی کہ فائزہ یکدم کچن میں داخل ہوئی۔ توبہ ہے پتا نہیں لوگ کیسے چار چار ٹائم کھا لیتے ہیں اور کھایا پیا نظر تک نہیں آتا۔ اس نے عشنا کی پتلی جسامت پر طنز کیا اور نوالہ اس کی ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ حلق میں آنسوؤں کا پھندا بن گیا اور وہ چپ چاپ کچن سے باہر نکل آئی کمرے میں آ کر پھوٹ پھوٹ کر رودی۔ تو عشنا صاحبہ یہ ہے تمہاری سسرال میں اوقات کہ نوالے بھی گئے جاتے ہیں۔ امی کی باتیں کتنی سچ ثابت ہوئیں تھیں، وہ جب کبھی سسرال کا ذکر شکوؤں میں کرتیں تو وہ اکثر مبالغہ آرائی کا نام دے دیتی مگر اب اندازہ ہو رہا تھا کہ سسرال والے کسی حد تک بھی گر سکتے ہیں۔
☆☆☆



سسرال میں اس کی پہلی شب برات تھی اور ساس نے پہلے ہی سنانا شروع کر دیا۔ فلاں کی بہو اتنے من شب برات لے کر آئی تھی … پتا نہیں بہو کے میکے والے کیا لے کر آئیں گے کہیں ہماری ناک ہی نہ کٹ جائے ….. اگر شاپروں میں شب برات کا سامان لے کر آگئے۔ اماں کچھ اچھی امید نہ رکھو… بھابھی کے گھر والوں سے ، شادی پر دیکھا تھا کیسا کھانا دیا تھا، کسی کو بھی پسند نہیں آیا تھا۔ کیسی ہنسی اڑی تھی ہماری نند نے لقمہ دیا۔ وہ چپ چاپ کچن میں کام کرتی رہی اور ان کی باتیں سن کر جلتی رہتی، ایسی ہی سماعتوں کو چھید دینے والی باتیں کانوں سے ٹکراتیں رہتیں اور وہ ضبط کی تصویر بنی کاموں میں الجھی رہتی۔ ابو نے شادی میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی تھی۔ بہت شاندار انتظام کیا گیا تھا کئی ڈشز بنوائی گئی تھیں اور کھانا بھی بہت لذیز تھا۔ ہر ایک نے تعریف کی تھی، دیکھنے والوں نے یہی کہا لگتا نہیں ہے غفار کی چوتھی بیٹی کی شادی ہے۔ یوں لگ رہا ہے پہلی بیٹی بیاہ رہا ہے، جہیز میں کون سی ایسی چیز تھی جو اسے نہ دی گئی ہو۔ اعلی سے اعلی چیزیں تھیں مگر اس میں بھی کیڑے نکالے جاتے چیزوں کو حقارت سے دیکھا جاتا۔ اماں صوفہ دیکھنا ذرا، کیا دھان پان سا ہے اسے تو اٹھا کے سائیڈ پر رکھوا دو، ذرا سا کوئی صحت مند بیٹھا اور یہ تڑاخ سے ٹوٹا کہیں بے عزتی ہی نہ ہو جائے۔ چھوٹی نند صوفے پر بیٹھ کر جانچتی ہوئی بولی اور وہ دل مسوس کر رہ گئی۔
☆☆☆



وقت تیزی سے گزر رہا تھا، ماں کی نصیحتیں جو گرہ میں باندھی تھیں چاہتے ہوئے بھی نہ کھول پائی۔ وہ ماں کو شرمندہ نہیں کروانا چاہتی تھی، ان کی تربیت پر حرف آئے وہ یہ کسی طور پر گوارا نہیں کر سکتی تھی، ہر ظلم، زیادتی ، چپ چاپ برداشت کرتی چلی گئی، ساتواں مہینہ شروع ہوتے ہی ایک نیا شوشا ساس نے چھوڑ دیا۔ بہو میکے والوں کو خبر کر دو کہ ہم ستوانسہ لگارہے ہیں۔ مگر امی یہ تو ہندوانہ رسم ہے اب کون یہ رسمیں کرتا ہے اور اچھا بھی نہیں لگتا۔ وہ ڈرتے ڈرتے بولی۔ ارے واہ کیوں اچھا نہیں لگتا، میرے بچے کی پہلے خوشی ہے میں تو ضرور کروں گی اور ہاں میں بتادوں گی کہ رسم میں کیا کچھ لے کر آتے ہیں۔ میں کہے دیتی ہوں اماں سے کہہ دینا کسی چیز کی کوئی کمی نہ ہو، سارے رشتہ دار ا کٹھے ہونگے۔ میری سبکی نہ کروا دینا سوا من مٹھائی سے کم بات نہیں چلے گی، ساس سسر کے جوڑے، شوہر کا سوٹ، جوتوں، جراب سمیت ۔ اور پتا نہیں وہ کیا کیا فہرست بنا رہی تھیں وہ چکرا کر رہ گئی۔ میرے اللہ میرا باپ کیا اسی طرح لگتا رہے گا، بوڑھے و ناتواں کندھے بیٹیوں کے سسرال والوں کی فرمائشیں پوری کرتے اب تو جھک سے گئے تھے۔ شوہر سے جب اس کا ذکر کیا تو انہوں نے یہ کہہ کر کنارہ کشی اختیار کر لی۔ بھئی مجھے تو تم ان معاملات میں نہ گھسیٹو یہ تم عورتوں کا معاملہ ہے اماں جو بہتر سمجھتی ہیں وہی کریں گئی۔ اور وہ ان کی بات سن کر سر تھام کر رہ گئی۔ ستوانے کی رسم پر اسے اپنی امی کے ساتھ بھیج دیا گیا اور وہ دل میں شکر ادا کرنے لگی کہ جسمانی و ذہنی اذیت اٹھاتے اب وہ تھک چکی تھی اگر کچھ دن اور یہاں رہتی تو دماغ کی رگیں پھٹ جاتیں، امی صبح شام اس کے کھانے پینے اور آرام کا خیال رکھتیں، ابو نے اس کی شادی کے بعد ایک مستقل ملازمہ رکھ لی تھی تا کہ امی کو کام کرنے میں کسی قسم کی دشواری نہ ہو اپنا گھر اسے جنت کا ایک ٹکڑا لگتا۔ جہاں ممتا لٹاتی ماں محبت سے لبریز باپ کا کشادہ سینہ اور بہن بھائی کی چاہتیں یہاں آکر وہ اپنے آپ کو ایک زندہ وجود محسوس کرنے لگی میرا بچہ میری خوشیوں کا محور یقینا اس کے آنے سے میرے سارے غم و کلفتیں راحتوں میں بدل جائیں گی۔ امی نے اس کے بچے کے لیے ڈھیروں ڈھیر چیزیں خریدنی شروع کر دیں اور وہ خواہ مخواہ شرمندگی محسوس کرتی رہتی کہ آخر یہ کب تک دینے کا سلسلہ چلتا رہے گا ، عدنان کا اکثر فون آجاتا اس کی خیریت دریافت کرتے اور وہ اسی میں خوش ہو جاتی کل رات سے اسے بخار ہورہا تھا، طبیعت بھی عجیب سی خراب ہورہی تھی اس کی حالت کے پیش نظر حرا باجی اسے ڈاکٹر پر لے گئی جہاں انہوں نے چیک اپ کے بعد فوراً ایڈمٹ کر لیا کیونکہ اس کی کنڈیشنڈ کچھ ایسی پیچیدہ ہورہی تھی کہ انہوں نے فوری آپریشن کی تیاری شروع کر دی، اس کے سسرال والوں کو مطلع کر دیا گیا، ابو صدقہ و خیرات کرنے میں مصروف ہو گئے ، امی کے وظیفے شروع ہو گئے اور بہنیں عشنا کو تسلی دینے لگیں اور وہ وسو سے لئے آپریشن تھیٹر میں داخل ہو گئی۔
☆☆☆



اسے اپنے آس پاس ڈھیروں لوگوں کی موجودگی کا احساس ہو رہا تھا۔ کچھ عجیب سا شور شرابا تھا، عدنان اور ان کی امی کی باتوں کی آوازیں اس کے کانوں سے ٹکرائیں تو اس نے آنکھیں کھول دیں اور امی کو اپنے پاس کھڑا ہو پایا، سامنے ہی بینچ پر ساس گود میں بچہ لئے بیٹھی تھیں۔ اسے آنکھیں کھولتا دیکھ کر عدنان بھی اس کے پاس چلے آئے۔ میں …… میں کہاں ہوں امی؟ بیٹا تم ہاسپٹل میں ہو، میرے رب نے تمہیں چاند سی بیٹی عطا کی ہے۔ امی نے اس کا ماتھا چوم لیا اور عدنان بھی اس کا ہاتھ پکڑ کر مسکرا دیئے۔ مگر اس کے ہونٹ بیٹی کا لفظ سن کر خشک ہو گئے۔ پورے جسم پر ایک کپکپی سے طاری ہو گئی۔ بیٹی بیٹی میری بیٹی ہوئی ہے مگر مجھے تو بیٹی نہیں چاہیے تھی میں بیٹی کی ماں کیوں بنی ۔ شکوہ اس کے لبوں پہ مچلا۔ کیسی باتیں کر رہی ہو بیٹی تو خدا کی طرف سے تحفہ ہے رحمت آئی ہے تمہارے گھر میں امی قدرے برہم ہوئیں ہاں میں جانتی ہوں کہ میری جھولی میرے اللہ نے رحمت سے بھر دی ہے مگر عدنان ہم بیٹی کو پال پوس کر اچھی تربیت و تمام خواہشات پوری کر کے جب اسے اپنے گھر سے رخصت کریں گے تو ہم کیسے اس کی جدائی کا صدمہ برداشت کریں گے، اللہ نہ کرے اگر میری بیٹی بھی میرے جیسا نصیب لے کر پیدا ہوئی تو اس کے دکھوں کی اذیت تو ہمارا دل چیر دے گی، اسے شکم سیری بھی نصیب نہ ہوئی تو نوالے تو ہمارے حلق میں ہی اٹک جائیں گے تم اپنی بیٹی کو دنیا کی ہر نعمت دے کر بھیجو گے اور اس کے سسرال والے پھر بھی اسے چین سے نہ جینے دیں تو تم کیسے سکون کی نیند سو سکیں گئے۔ وہ ہذیانی انداز میں عدنان کا گریبان پکڑ کر چیختے ہوئے بولتی جا رہی تھی، عدنان نے ندامت سے گردن جھکالی تھی اور ساس اس سے نظریں چرا کر بچی کو پیار کرنے لگیں، امی اس کے دکھوں سے باخبر ہو کر سسکیاں لے رہی تھیں۔ اور عشنا کی آنکھوں سے تواتر سے بہتے اشک تکیے میں جذب ہوتے جارہے تھے ۔ آج اسے احساس ہوا کہ بیٹیوں کی مائیں بیٹی کی پیدائش پر کیوں بجھ سے جاتی ہیں اور دل میں کہیں یہ خواہش ضرور سر پٹیخ رہی ہوتی ہے کہ کاش میں بیٹے کی ماں بنتی اے کہ کاش۔




TAGS

Post a Comment

0 Comments

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();