جب تک ماں زندہ رہیں، انہوں نے مجھے احساس نہیں ہونے دیا کہ میں کوریدہ ہوں۔ قدم قدم پر میں نے ان کی آنکھوں سے دیکھ کر چلنا سیکھا، ان کے ہاتھوں سے دنیا کی ہر شے کے لمس اور وجود کو محسوس کیا۔ ان کی آواز میری رہنما تھی۔ ممتا کے پیار سے بھری آواز سنتی تو ہنستی کھلکھلاتی تھی۔ وقت یونہی گزرتا رہا یہاں تک کہ میں چار سال کی ہو گئی۔ ابھی تک مجھے معلوم نہ تھا، دنیا کے کئی رنگ کئی روپ ہیں اور یہ دنیادیکھنے کی چیز ہے۔ میں تو بس ماں کے پیار کے لمس کو ہی دنیا سمجھتی تھی اور اسی کو محسوس کر سکتی تھی۔
ایک دن جانے کیا ہوا کہ اچانک دادی نے مجھے اپنی بانہوں میں بھر لیا اور بولیں۔ بیٹی ! تیری ماں اب اس دنیا میں نہیں رہی ہے۔ وہ اللہ میاں کے پاس چلی گئی ہے مگر رنج نہ کرنا، رونا نہیں۔ میں تیری ماں ہوں، آج سے تو مجھے ماں سمجھنا، میری آنکھوں سے دیکھنا اور میرے ہاتھوں سے چیزوں کی موجودگی کا احساس کرنا۔ اس دن تو مجھے دادی کی باتیں سمجھ میں نہ آئیں ، مگر رفتہ رفتہ ، جب اپنے خول سے نکلی تو سمجھ گئی کہ اب میری ماں نہیں رہی ہے اور دنیا بدل گئی ہے۔ وہ گود جو میری پناہ گاہ تھی، میں اس کو کھو چکی تھی۔ میں تو خیالات کے ایک ایسے جال میں سانس لے رہی تھی جس کو میری ماں نے بڑے دھیان سے ممتا کے ریشم سے بنا تھا۔ جب میں ماں کو ان خوبصورت نظاروں کے بارے تذکرہ کرتے سنتی تو رشک کرتی کہ کیا ہی چیز ہیں میری ماں کی آنکھیں ! تب مجھ کو اس نور کی خواہش نے تڑپانا شروع کر دیا، جس کو روشنی کہتے ہیں اور جس سے میرے خالق نے مجھ کو محروم رکھا تھا۔ میں اپنی دادی سے ضد کرتی کہ مجھے بھی آنکھیں لا دو، لیکن وہ جواب میں مجھے بہلا پھسلا کر سلا دیتی تھیں۔ تبھی نابینا ہونے کے باوجود بہت سارے خواب سوچنا شروع کر دیئے کیونکہ میں بہت زیادہ اونچائی پر اڑنا چاہتی تھی۔ دادی کہتی کہ آسمان بہت اوپر ہے ، جس پر چاند اور ستارے چمکتے ہیں۔ تبھی میں آسمان تک جانا چاہتی تھی اور چاند ستاروں کو چھونا چاہتی تھی کہ ان کی چمک کیسی ہوتی ہے، کیونکہ میں ہر چیز کو چھو کر ہی سمجھ سکتی تھی کہ وہ کیسی ہے، اس کی شکل کس طرح کی ہے۔ کیونکہ میری آنکھیں تو میرے ہاتھ ہی تھے ، جن سے ہر شے کو چھو کر محسوس کیا کرتی تھی، ان کی شکل وصورت اور وجود کو ، تبھی مجھے ان کی موجودگی کا ادارک ہو پاتا تھا۔ اس محرومی سے آگے ایک اور محرومی بھی میرے ساتھ رہنے لگی اور وہ یہ کہ اب میں چاہتی تھی کہ دنیا مجھے جانے، پہنچانے، لیکن اس کے لئے، سب سے زیادہ اہم تو آنکھیں تھیں، جو میرے چہرے پر موجود ہوتے ہوئے بھی موجود نہیں تھیں کہ ان میں روشنی نہیں تھی، بلکہ کالی سیاہ دائمی رات بھری ہوئی تھی۔ نور سے محروم یہ سجاوٹی خو بصورت چراغ ، بجھے ہونے کے سبب میرے لیے کسی کام کے نہ تھے۔ جن کی خوبصورتی کی لوگ تعریف کیا کرتے تھے ، وہ میرے لئے بیکار تھیں کہ میں ان سے دیکھ نہیں سکتی تھی، جن میں بس اندھیرا ہی اندھیرا بھرا ہوا دیکھا۔ اگر کہیں سے بصارت آجاتی تو یہی آنکھیں میرے خوابوں کو سچ کر سکتی تھیں۔
دن گزرتے گئے، میں نا سمجھی کے دور سے نکل کر شعور کی منزلیں طے کرتی گئی۔ دن ابھرتے اور شامیں ڈھلتیں گئیں۔ میں صرف دوسروں کی زبان سے سن سکتی تھیں کہ آج کا دن گزر گیا اور رات آ گئی۔ میرے لئے تو دن اور رات کے چہرے ایک جیسے ہی تھے۔ البتہ یہ علم تھا کہ جاگنا ہے اور پھر سو جانا ہے پھر جاگنا ہے اور پھر سو جانا ہے۔ خواب آتے تھے مگر کیسے … صرف آوازوں سے بنے ہوئے۔ جو باتیں اور آوازیں جاگتے میں سنتی، سوتے میں وہ خواب بن جاتی تھیں۔ ایک ہم جولی نے جب میرا دکھ سنا تو کہا۔ پگلی ! ہم اپنی زندگی سے اندھیروں کو خود دور کر سکتے ہیں اور اپنے خوابوں میں خود ہی رنگ بھی بھر سکتے ہیں۔ تم دیکھ نہیں سکتی ہو مگر سوچ تو سکتی ہو ۔ تم ایسے سوچنا شروع کر دو، جیسے تمہارے کندھوں پر پر ہیں۔ اس طرح تم خود کو اوپر جاتا محسوس کرو گی۔ تمہاری زندگی میں خوشی کا احساس رنگ بھر نے لگے گا اور تم خود اپنی سوچوں سے اپنے لئے خوشی کا احساس تخلیق کر پائو گی ، تب تم کو ایک نئی اور انوکھی زندگی مل جائے گی۔ سہیلی کی بات میری سمجھ میں نہ آئی، مگر جب بہت غور کیا تو اس کی کہی باتیں سمجھ آنے لگیں۔ دادی اماں نے میرے لئے ایک طوطا پالا ہوا تھا۔ وہ جب لایا گیا تھا، تب وہ چھوٹا سا بچہ تھا۔ جب پالتو ہو گیا تو میرے ہاتھ پر بیٹھ جاتا اور میں اسے پھل یا سبز مرچ کھلاتی۔ وہ میرے ہاتھ سے کھاتا، تب میں پیار سے اس کے اوپر ہاتھ پھیرتی۔ دادی اماں کہتیں۔ بیٹی یہ اس کے پر ہیں۔ ذرا بڑھتے ہیں تو ہم کاٹ دیتے ہیں ، اگر پورے پر نکل آئیں گے تو یہ اڑ جائے گا، تب میں ان کو منت سے کہتی۔ دادی آپ اس کے پر نہ کاٹا کریں۔ یہ تو بہت ملائم سی چیز ہیں، آخر کیوں کاٹتی ہیں آپ اس کے انگ کو ؟ یہ ہم سے پیار کرتا ہے ہم اس سے، اس لئے اس کے پر آ بھی گئے، تو نہیں اڑے گا۔ طوطا بے وفا ہوتا ہے بیٹی ! یہ کبھی بھی اڑ جاتا ہے۔ وہ ہنس کر جواب دیتیں۔ بے شک اس کو اڑنا نہ آئے تو بھی کوشش ضرور کرتا ہے، کیونکہ اپنے پر پھیلا کر ہوائوں میں اڑنا، ہر پنچھی کا خواب ہوتا ہے، مگر پالتو پرندوں کو چاہے اڑنا نہ آئے، یہ اڑان ضرور بھرتے ہیں پھر جب بلندی تک نہیں جا سکتے تو بہت اوپر سے گرتے ہیں ، تب بہت چوٹ لگتی ہے ان کو ، میں اس کو اس تکلیف سے بچانا چاہتی ہوں۔ ایک دن میری سہیلی ندا نے مجھ سے کہا۔ بینا ! تم ایسا سوچو ، جیسے تمہارے کندھوں پر اس طوطا کی طرح پر آرہے ہیں اور جب پر پوری طرح آجائیں گے تو تم اڑ سکو گی ، تب یہ سوچ کر تم کو بہت خوشی ہو گی۔ بس خوشی کے اسی احساس کو زندگی کہتے ہیں۔ تم اس طرح خواب دیکھ کر اپنے نابینا ہونے کی محرومی کو مٹا سکو گی ۔اس نے صحیح کہا تھا، میں نے ایسا ہی سوچا اور پھر خواب دیکھنے شروع کر دیئے، جیسے میرے دونوں کندھوں پر پر آرہے ہوں۔ ایک دن مجھے لگا جیسے میرے کندھوں پر پورے پنکھ آ گئے ہیں اور اب میں اڑ سکوں گی۔ میں نے دادی سے کہا۔ دادی ! اب میں پندرہ سولہ سال کی تو ہو چکی ہوں گی ؟ وہ بولیں۔ ہاں، ایسا ہی ہے مگر یہ سوال کیوں کیا ہے ؟ اس لیے ، مجھے لگتا ہے کہ میں اب اڑ سکتی ہوں۔ وہ ہنسنے لگیں۔ بیٹی ! اس عمر میں پر ہوں یا نہ ہوں، انسان یہی محسوس کرتا ہے جیسے وہ اڑ سکتا ہے۔ تم بھی چاہو تو ضرور اڑو، مگر دھیان سے اڑنا، کہیں گر نہ جائو۔
بھیانک حقیقتbiyanak khaqeeqat urdu real story in urdu
ان دنوں میں دادی کی ہر بات سنی ان سنی کرنے لگی تھی کیونکہ ان کے سہارے کے بغیر محض اپنے اندازے سے سارے گھر میں چل پھر سکتی تھی، باغ میں جا سکتی تھی۔ جس کنج میں چاہتی جا بیٹھتی اور جس جھاڑی کے پاس چاہتی، رک کر پھولوں کی خوشبو سونگھ لیتی۔ مجھے نہ کوئی کانٹا لگتا اور نہ ٹھوکر۔ مجھے ستائش کی تمنا نہ تھی۔ صرف گلابوں کو چھونے اور ہوائوں میں اڑنے کی خواہش تھی۔ چھو کر ہی میں نے بہت سے گلابوں کو پہچانا، سونگھ کر ہی ان کی رنگ برنگی خوشبو کا فرق محسوس کر لیا تھا کہ یہ گلابی رنگ کا ہے اور یہ سرخ رنگ کا۔ ہر پھول کی پنکھڑی کی نرمی اور نازکی کا اپنا الگ احساس، میری انگلیوں کی پوروں کو چھونے سے مختلف تاثر دیتا تھا۔ میں اسی مختلف تاثر سے ان کے رنگ روپ اور نام جان لیتی تھی، جیسے میرے ہاتھوں کی پوریں ہی میری آنکھیں ہوں۔ اب یہ میرا معمول ہو گیا، صبح سویرے گھر سے باغ کی طرف نکل جاتی اور دیر تک گلابوں کے جھنڈ کے پاس بیٹھی رہتی ۔ ایک دن ایسا آیا کہ ان رستوں اور گلابوں سے میرا جی اوب گیا۔ اب میں نئے اور زیادہ وسیع باغ میں جاکر چہل قدمی کرنا چاہتی تھی۔ پھولوں بھرے نئے نئے کنج تلاش کرنا چاہتی تھی۔ میں اب کنج بالا بنی ، ان کی خوشبوئوں اور ملائمت کو اپنے ہاتھوں سے محسوس کرنا چاہتی تھی۔ میری زندگی کا ہر لمحہ ایک نیا لمس اور ایک نئی خوشبو کا آرزومند تھا۔ ہوا کے جھونکے جب ڈالیوں میں سرسراتے ، زندگی میں دلکشی بڑھ جاتی تھی اور مجھے اپنے زندہ ہونے کا بھر پور احساس ہوتا تھا۔ میں کبھی اکیلی اور کبھی اپنی چچازاد بہنوں کے ساتھ باہر جاتی۔ ان کے ساتھ بچپن میں کھیلتی تھی ، اب انہی کے ہمراہ باغ کی سیر کو جانے کا من کرتا۔ بچپن میں وہ درختوں کے پیچھے چھپ کر مجھے آوازیں دیتیں، میں ان کی آواز کی سمت کا صحیح تعین کر کے ڈھونڈ لیتی۔ یہ کھیل اب بھی مجھے بھلا لگتا تھا۔ ایک روز میں اپنی سہیلیوں کے ہمراہ باغ میں تھی۔ وہ سب ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کرنے میں مشغول ہو گئیں اور مجھے بھول گئیں کہ میں بھی ان میں موجود ہوں۔ اچانک میرے دل میں ایک آواز کسی جھونکے کی طرح آئی کہ مجھے کہیں اور جاکر قسمت آزمائی کرنا چاہیے۔ آخر دنیا اتنی بڑی ہے ، آگے اور باغ ہوں گے ، پھول ہوں گے اور ان کی خوشبوئیں اور زیادہ سحر بھری ہوں گی۔ میں چپکے سے اٹھی اور سرکتی ہوئی ان سے دور ہوتی گئی۔ وہ اپنی باتوں میں مگن رہیں، میرے جانے پر کسی نے دھیان تک نہ دیا۔ میں قدم قدم آگے بڑھتی جارہی تھی۔ رستہ صاف اور سیدھا تھا۔ اس باغ سے نکل کر ایک اور باغ میں جا پہنچی۔ یہاں کی فضا میں قدرے خاموشی تھی، مجھے یوں لگا کہ یہاں کوئی موجود نہیں ہے ، جیسے اس باغ کو تنہائی کا روگ لگ گیا ہو۔ پرندوں کی چہکاریں تک نہ تھیں، نہ ہوا کے جھونکے ڈالیوں کو ہلا رہے تھے اور نہ ہوائیں پتوں میں سرسرا رہی تھیں۔
ہمارے گھر سے یہ جگہ کافی دور تھی۔ چلتے چلتے میں ایک جگہ ٹھہر گئی۔ شاید پیروں میں آگے بڑھنے کی سکت نہ رہی نی۔ حیرت یہ تھی کہ کوئی مجھ کو ڈھونڈنے میرے پیچھے آیا اور نہ کسی نے مجھے آواز دی۔ میں ایک پتھر پر سستانے کے لئے بیٹھ گئی، اپنی دنیا میں گم صم ۔ قریب سے مجھے گلابوں کی خوشبو آئی۔ یقیناً یہاں گلاب کے پھول کھلے ہوئے تھے۔ سوچا، دم لے لوں تو آگے جا کر پھولوں کی خوشبو کو روح میں اتاروں گی۔ ابھی ایسا سوچاہی تھا کہ کسی نے کہا۔ کیا تم نے ہمارا باغ دیکھا ہے ؟ یہاں ہر رنگ کے گلاب ہیں، پھر وہ تاسف سے گویا ہوا۔ لگتا ہے تم نابینا ہو۔ کیا تم دیکھ نہیں سکتی ہو ؟ نہیں، میں نابینا نہیں ، میرا نام تو بینا ہے۔ اچھا تو تم نام کی بینا ہو ، مگر میں تو تم کو اپنے باغ کی دلکشی دکھانا چاہتا تھا۔افسوس کہ تم اندھی ہو۔اندھی ہوں، مگر ان کو چھو کر اور سونگھ کر دیکھ سکتی ہوں۔ ایک حس نہیں ہے لیکن باقی سب حسیں میرے پاس ہیں۔ مجھے اتنا پتا ہے کہ ان میں جو کانٹے ہیں، ان سے کیسے بچا جا سکتا ہے۔ میں گلاب کو پکڑتی ہوں، مگر کانٹوں سے ہاتھ زخمی نہیں ہوتے۔ یہ تو کمال کی بات ہے۔ وہ ہنسا تھا۔ ہمارے ہاتھ تو آنکھیں رکھتے ہوئے بھی زخمی ہو جاتے ہیں۔ کوئی نہ کوئی کانٹا لگ ہی جاتا ہے ، حالانکہ ہم ان کو دیکھ کر چھوتے ہیں۔ یہی تو ہے کمال کی بات۔ میں خوشی سے ہنسنے لگی۔ مجھے علم نہ تھا کہ مخاطب کی نیت کیا ہے اور میں طاقتوروں کی دنیا میں تھی ، جہاں وہ جو چاہتے، کر سکتے تھے۔ ہمارے پڑوسی کے اس نازوں پلے بیٹے نے مجھے اکیلا، ناتواں اور نابینا سمجھ کر گھیر لیا تھا۔ میں نے منت کی، مگر اس امیر زادے کو میری کوئی آواز سنائی نہ دی۔ اگر میں اندھی تھی تو وہ بھی بہرہ ہو چکا تھا۔ تبھی فضا نے دم سادھ لیا، جیسے ہوائوں نے رخ موڑ لیا ہوا اور پانی کی سانسیں بھی بھی ٹھہر گئی ہوں۔ ندی بھی ساکت ہو گئی تھی۔ میں جو ہوائوں میں اڑنا چاہتی تھی، اس نے ایک خوبصورت تتلی سمجھ کر مجھے پکڑ لیا۔ میرے خیالوں کے خوبصورت پروں کو توڑ کر میرے وجود سے ہمیشہ کے لئے جدا کر دیا۔ میں فریاد کرنا چاہتی تھی اس نے میرے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور مجھے گونگا کر کے ایک کونے میں تنہا چھوڑ دیا۔ بہت دیر تک میں خاک پر گری روتی رہی۔ اٹھ کر چلنے کی ہمت بھی نہ تھی ، پرواز کیا کرتی؟ پر تو میرے اس ظالم نے نوچ ڈالے تھے۔ رینگتے ہوئے اپنی منزل تک جانے کی کوشش کی۔ میری آہوں سے بھرا ہر قدم ڈگمگانے والا تھا۔ اندھی ہونے کے باوجود وہ پائوں جو ٹھوکر کھاتے نہ تھے اب ٹھوکر پر ٹھوکر لگ رہی تھی۔ وہ بلند ہمتی جو سدا میرے ساتھ رہتی تھی، وہ آس اور امید جس کا در میں نے ہمیشہ کھلا رکھا تھا، وہاں بھی دیوار کھڑی تھی۔ میں دو چار قدم اٹھاتی اور پھر بیٹھ جاتی۔ لگتا تھا کہ میری ہر سانس میں زہر اتر چکا ہے۔ میری روح ایسی حیوانی دنیا کو محسوس کر کے کانپ اٹھی تھی، جس کو پہلے کبھی میں نے جانا نہ تھا۔
زمانے کا دستورzamany ka dastoor urdu story
یہ کیسا باغ تھا، جہاں سبز باغ دکھا کر معصوم تتلیوں کی زندگیوں سے ان کے رنگ چھین لیے جاتے تھے۔ میری سانس اکھڑنے لگی اور مجھے اپنی عاقبت خاکستر ہوتی دکھائی دی، تبھی میں نے پکارا۔ دادی ماں ! دادی ماں کہاں ہو ؟ آئو ، مجھے پکڑو، مجھے تھاموں میں گرنے لگی ہوں۔ ایک بھاری آواز سنائی دی۔ بیٹی ! تمہاری دادی ماں یہاں نہیں ہیں، لیکن تم اکیلی یہاں تک کیسے آگئیں ؟ ادھر آئو، میرا ہاتھ پکڑلو۔ میں تمہارے گھر کی عقبی طرف رہتا ہوں – تمہارے گھر تک تم کو پہنچادوں گا۔ ڈاکٹر صاحب یہ باغ کس کا ہے ؟ میرا ہے اور تم میرے پڑوسی شیر خان کا باغ پار کر آئی ہو۔ اور آپ کا باغ کہاں ہے ؟ ندی کے اس پار ، حیرت ہے کہ تم نے ندی کو کیسے پار کیا۔ تم تو دیکھ نہیں سکتیں۔ انکل! میں نے روتے ہوئے کہا۔ میں نابینا ہو کر بھی ندی کو پار کر سکتی تھی، کیونکہ مجھ کو اندازہ تھا کہ پل کہاں ہے ، مگر اب دنیا میرے لئے تاریک ہو گئی ہے۔ میرے دل کی آنکھیں ہمیشہ کے لئے بند ہو گئی ہیں ، بجھ گئی ہیں۔اب میں پل کو بغیر کسی سہارے کے پار نہیں کر سکتی۔ مایوس نہ ہو بیٹی میرے باغ میں آکر تمہارے دل کے چراغ گل ہوئے ہیں تو میں انہیں روشن کرنے کی پوری کوشش کروں گا۔ نہیں انکل، میری آنکھوں کے چراغ ، آپ کے باغ میں آکر بند نہیں ہوئے۔ اس سے ذرا پیچھے جو باغ ہے گلابوں کا ، وہاں بند ہوئے ہیں۔ اچھا ٹھیک ہے۔ میں ان میں نئی روح پھونک دوں گا۔ ایک بار مجھے اپنی آنکھوں کا معائنہ کرنے دو۔ انہوں نے میری آنکھوں کا معائنہ کیا اور بولے کہا۔ اے خوبصورت بچی ! تمہاری آنکھیں ٹھیک ہو سکتی ہیں۔ میں تمہارے لئے قرینے کا بندوبست کر سکتا ہوں۔ آپریشن سے نیا قرنیہ لگے گا، پھر تم دیکھ پائو گی۔ میں نے کہا فی الحال مجھے میرے گھر پہنچا دیں، میری آنکھوں میں روشنی لانے کا انتظام بعد میں کرنا۔ آپ کو شاید یہ سن کر حیرت ہو گی کہ میں نے ڈاکٹر صفدر کو مایوس کیا اور اپنی آنکھوں کا آپریشن کرانے سے انکار کر دیا تھا۔ وہ کئی بار مجھے قائل کرنے آئے ، مگر میں راضی نہ ہوئی۔ ایک دن اس فرشتہ صفت انسان کو اجل اپنے ساتھ لے گئی۔ میں نے دادی سے کہا کہ شکر ہے میں نے آپریشن نہیں کروایا۔ میں اندھی ہی ٹھیک ہوں۔ طاقتوروں کی اس بے رحم دنیا کو دیکھنے کو میرا من ہی نہیں کرتا۔ میں اپنے خیالوں کی اندھیری دنیا میں ہی خوش ہوں۔
0 Comments