After finishing the housework, in the afternoon, when I was lying down for a while, I heard the beeping of the mobile phone. There was a message from an unknown number. Biryani plate Biryani plate too. It is a wonderful thing. A sudden plate of biryani from the neighborhood breaks into laughter among the siblings. She read under her breath and then smiled sadly. Memories of Mackay flashed through his mind. The spacious courtyard of the parents' house, the crowd of siblings and the biryani pot that was cooked somewhere after a month in the midst of inflation, in which the accessories were barely filled and the meat was also included in insufficient quantity, but mother Najane used to mix the delicious taste of her maternal grandmother so that the whole pot would become empty - if there was ever a half plate left, mother would keep it covered in the refrigerator. The next day, all the siblings pounced on him. The grain would have been distributed. Mother kept screaming. Little luck! Just yesterday, there was so much Biryani. I will make it then. But who listens?
گھر کے کام کاج سے فارغ ہو کر دوپہر میں ذرا سی دیر کے لیے ستانے لیٹی تو موبائل کی بیپ سنائی دی ۔ کسی انجان نمبر سے میسج تھا۔ بریانی کی پلیٹ بریانی کی پلیٹ بھی کیا ۔ عجب شے ہے۔ پڑوس سے آنے والی اچانک بریانی کی پلیٹ ہنستے بستے بہن بھائیوں میں پھوٹ ڈال دیتی ہے۔ اس نے زیر لب پڑھا اور پھر افسردگی سے مسکرادی۔ تصور میں میکے کی یادیں آنکھ مچولی کھیلنے لگیں۔ ماں باپ کے گھر کا وسیع و عریض آنگن، بہن بھائیوں کا ہجوم اور مہنگائی کے عالم میں مہینے بھر بعد کہیں جا کر پکنے والا بریانی کا دیگچہ جس میں لوازمات بھی بامشکل ہی پورے ہوتے تھے اور گوشت بھی ناکافی مقدار میں شامل ہوتا تھا مگر ماں نجانے اپنی مامتا کا کیسا لذت بھرا ذائقہ گھول دیتی تھی کہ آنا فانا سارا دیگچہ چٹ حیت ہو جاتا- اگر کبھی ایک آدھ پلیٹ بچ جاتی تو ماں فریج میں ڈھک کر رکھ دیتی۔ اگلے دن اس پر تمام بہن بھائیوں کی چھینا جھپٹی۔ دانہ دانہ تقسیم ہوتا۔ ماں چیختی رہ جاتی۔ کم بختو! ابھی کل ہی تو اتنی بریانی ٹھونسی تھی۔ پھر بنا دوں گی۔ مگر سنتا کون؟
اسی طرح جب بھی یونہی بیٹھے بٹھائے پڑوس کی خالہ کے ہاں سے بریانی کی پلیٹ آجاتی تو وہ شور اٹھتا کہ الامان الا حفیظ ایک پلیٹ کے پیچھے بھاگم دوڑی۔ کوئی بوٹی اچک کر لے جاتا اور کوئی چمچے کے تکلف میں پڑے بغیر ہاتھوں سے کھانا شروع کر دیتا۔ ندیدو ! اب کیا خالہ کی پلیٹ بھی کھا جاؤ گے؟ اماں گھورتیں ابا چشمے کے اوپر سے دیکھ کر زیر لب مسکراتے۔ کتنے اچھے دن تھے۔ اب تو خواب و خیال ہی ہوگئے۔ ایک ایک کر کے تمام تمام بہنوں بہنوں کی شادیاں ہوگئیں۔ وہ بیاہ کر بہت خوش حال گھر میں آئی تھی۔ جیٹھانی خاندانی بہوتھی اور کچن پر اس کی مکمل اجارہ داری تھی۔ ہر تیسرے چوتھے دن پر پانی کا بڑا سا پتیلا چڑھتا۔ بے شمار لوازمات اور وافر گوشت کے ساتھ۔ مگر نجانے کیوں اسے مزا نہ آتا۔ شاید اجزاء کی بھر مار کے باعث کسی بھی شے کا اصل ذائقہ نہ اُبھرتا۔ عجیب گھلا گھلا سا ٹیسٹ ہوتا۔ مرچ مسالے کی بھی زیادتی ہوتی۔ وہ پانی کے گھونٹ سے چاول اندر اتارتی۔ جب کبھی میکے کا چکر لگتا تو ماں نے فریج کے کسی کونے میں اس کے حصے کی بریانی ضرور ہی فریز کی ہوتی ۔ وہ ٹوٹ پڑتی۔ بھائی مذاق اڑاتے۔ لگتا ہے آپا صرف بریانی کھانے ہی آتی ہیں۔ کیوں آپا! کیا تمہارے سرال میں بریانی نہیں بنتی۔ بنتی ہے بلکہ بہت زیادہ بنتی ہے مگر ماں جیسی نہیں ۔ وہ سارا کا سارا باؤل ہڑپ کر جاتی۔
پھر وقت مزید آگے سرکا۔ وہ خود بچوں کی ماں بن گئی۔ اس کے اپنے بچے اس سے فرمائشیں کر کر کے پکواتے مگر اس کی زبان کو ماں کے ہاتھ کی بریانی کا چسکا لگا رہا۔ ایک شام ماں چپ چپاتے ہی گزر گئی۔ وہ کئی دن تک بے یقین رہی۔ ہائے مائیں کتنی آسانی سے دامن چھڑا کر چلی جاتی ہیں۔ ماں کی وفات کے بعد بھائیوں نے آنگن کے بیچ دیوار اٹھا کر اپنے اپنے پورشن تقسیم کر لیے۔ وہ وسیع و عریض آنگن سمٹ کر مختصر سا رہ گیا۔ ایک کنوارہ بھائی تھا وہ چھت پر بنے کمرے میں مقیم ہو گیا۔ اب تو اس کا میکے جانا بھی بہت کم ہو گیا۔ کچھ تو بچوں کی تعلیمی مصروفیات اورسچی بات تو یہ تھی کہ کچھ اب ماں جتنے اصرار اور خلوص سے کوئی بلاتا بھی نہیں تھا۔ پھر چھوٹے بھائی کی بھی شادی ہوگئی۔ عین شادی کے دنوں میں اس کے تمام بچوں کو خسرہ نے آ لیا۔ وہ بامشکل ہی گھڑی دو گھڑی کے واسطے فنکشن میں شریک ہوئی۔ نئی نویلی بھاوج سے ایک طرح تعارف ہی نہ ہو پایا۔ اس دن دولہا دلہن کی دعوت کی تو وہ معذرت کر کےہنی مون پر روانہ ہو گئے- اس کا بھی بعد میں جانا نہ ہوا-
ایک دن وہ بازار بچوں کے یونیفارم خریدنے گئی۔ وہاں سے میکے کا گھر قریب ہی تھا۔ لاشعوری طور پر اس نے واپسی پر رکشے والے کو وہاں تک چلنے کا کہہ دیا- نیچے والی تو دونوں بھابیاں غائب ہیں۔ ایک بھائی کے گھر گئی تھی اور دوسری کی خالہ کا چہلم تھا۔ البتہ ني والی موجود تھی۔ لپک کر آئی۔ بڑی گرم جوشی سے کتنی دیر گلے لگی رہی۔ پھر اپنے کمرے میں بٹھا کر ٹھنڈا ٹھار لیموں پانی بنالائی۔ آپا ! آپ آرام سے بیٹھیں۔ میں کچھ کھانے کے لیے لاتی ہوں ۔ کیا بنا ہے ؟ دلہن ! اسے بھی زوروں کی بھوک لگی تھی۔ بے تکلفی سے پوچھ بیٹھی۔ آپا بھنڈی گوشت بنارہی ہوں۔ اس میں تو ابھی کچھ دیر ہے۔ میں آپ کے لیے کچھ اور لاتی ہوں۔ پھر کچھ دیر تک وہ کچن میں کھٹر پٹر کرتی رہی اور جب واپس آئی تو ٹرے میں ایک پلیٹ بریانی رکھی ہوئی اسے کے سامنے دھری ۔ . واہ بھئی واہ! کیا بریانی بھی بنائی ہے۔ وہ کھل اٹھی۔ نہیں آپا یہ تو اتنے دن پہلے بنائی تھی۔ حاشر نے بتایا تھا کہ آپ بریانی بہت شوق سے کھاتی ہیں تو میں نے ایک ڈبہ فریز کر لیا۔ اب وہی اوون میں گرم لائی ہوں۔ بڑی آپا نے ایک دن بتایا تھا کہ اماں مرحومہ بریانی بہت اچھی بناتی تھیں۔ ان ہی سے پوچھ کر اماں کے طریقے سے بنائی ہے۔ میں نے ان کے ہاتھ کی کھائی تو نہیں ہے۔ اب پتا نہیں ان جیسی بنی ہے یا نہیں۔ وہ نان اسٹاپ بولے جارہی تھی اور وہ حیرت سے گنگ لا پروا سے حلیے میں اونچی پونی ٹیل بنائے بظاہر لاابالی سی نظر آنے والی چھوٹی سی لڑکی کو دیکھ رہی تھی جس نے ماں سے اس کی جذباتی وابستگی کو کیسے یاد رکھا تھا۔
ماں کی ذات سے جڑی یہی جذباتی وابستگی اس کی موت کے بعد لڑکیوں کو میکے والوں سے شاذ ہی ملتی ہے۔ بات ماں کے ہاتھ کے بنے کھانوں اور چیزوں کی نہیں ہوتی ، بات تو مامتا کے انمول رشتے میں موجود خلوص اور محبت کی ہوتی ہے جس سے اس کے جانے کے بعد لڑکیاں محروم ہو جاتی ہیں۔ اگر پیچھے رہ جانے والے ان کا مان اور بھروسا قائم رکھیں تو نقصان کی کسی نہ کسی حد تک تلافی ہو جاتی ہے۔ اس نے اپنے سامنے دھری بریانی کی پلیٹ کو دیکھا۔ دل میں ماں کی یاد سے ایک ہوک سی اٹھی۔ آنکھیں پانیوں سے بھر گئیں۔ اس نے ایک چمچ بھر کر منہ میں ڈالا۔ کیسی ہے ؟ آپا اماں جیسی ہے نا ؟ چند ماہ پرانی بھاوج نے اشتیاق سے پوچھا۔ اس کی آنکھوں میں پر خلوص سی چمک تھی۔ اس کے اشک گالوں تک بہنے لگے۔ ہاں بالکل ماں جیسی ہے۔ اس نے چاول حلق سے اتارے اور آگے بڑھ کر بھاوج کو گلے سے لگا لیا۔ ہاں ! بالکل ماں جیسی ہے ۔ اس نے پھر اسی جملے کی تکرار کی۔ بھاوج نے اپنے دوپٹے کے پلو سے اس کے آنسو صاف کئے اور پھر دونوں نم آنکھوں سے مسکرا دیں۔
0 Comments