وجیہہ عامر تم اگر سمجھتی ہ ونا کہ تمہارے اور تمہاری بہنوں کے لیے من و سلویٰ اترے گا تو یہ تمہاری خام خیالی ہے۔ دادی کے آسرے پہ تم اپنی ذمہ داریاں نبھا سکتیں اس لیے بڑوں کی بات مان لو۔“ وہ مشرقی دیوار کے ساتھ چار پائی ڈالے دھوپ میں سستانے کی نیت سے لیٹی تھی جب دیوار کے پار سے نمودار ہوتے سر نے حسب معمول اس کے کانوں میں صور پھونکا۔ سید هشام علی ! میں دادی کے آسرے پہ نہیں اللہ کے آسرے پر صدق دل سے اپنی ذمہ داریاں نبھانا چاہتی ہوں اور جب دل خالص ہوتے ہیں تو خدا راہ نکالنے میں دیر نہیں کرتا۔ پھر بھی میں آپ کے خلوص کی قدر کرتی ہوں۔ اس لیے میرا کچھ دیر آرام حرام مت کریں اور جائیں یہاں سے۔ کھا جانے والی نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ ہاتھ جوڑ کر اٹھ بیٹھی۔ پیاری کزن مان لو کہ خدا بھی پرندوں کو تب رزق دیتا ہے جب وہ اپنے گھونسلے سے پرواز کرتے ہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ اس گھونسلے سے اگر تم نے رزق کے لیے پرواز کی تو افسوس تمہیں اس دنیا سے ہی پرواز کرنی ہوگی۔ کیوں کہ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کی ملازمت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ سو رشتے دار طعنے دے دے کر مار دیں گے تمہیں ۔ ٹوٹی ہوئی کرسی پر احتیاط سے دوسرا پاؤں جمائے وہ پھر بھاشن پر آمادہ ہوا تھا۔ وجیہہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا کے رہ گئی۔ بالکل ٹھیک فرمایا آپ نے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ خدا اس پہ قادر نہیں۔ خدا تو پھر کیڑے کو رزق دیتا ہے کیا پرندے کو گھونسلے میں رزق دینے کی قدرت نہیں رکھتا۔ رکھتا ہے اور دیکھنا میرے لیے بھی کہیں نا کہیں سے وہ کوئی وسیلہ ضرور بنائے گا۔ اب تم جا رہے ہو یا میں ہی اندر جاؤں ۔ اس نے اسے کڑے تیوروں سے گھورتے ہوئے جیسے ہی چپل میں پاؤں رکھے ، نازک سی کرسی ہشام کے لمبے چوڑے وجود کا بوجھ برداشت کرتے آخر ڈھے گئی۔ زمین بوس ہوئے ہشام کی ہائے وائے دیوار پار آ کر اس کے دل میں ٹھنڈک ڈال رہی تھی۔ اس نے چشم تصور میں گرے ہائے ہائے کرتے ہشام کی حالت سے حظ اٹھایا اور لیٹ گئی۔
آپی! کس کو منہ ہی منہ میں گالیاں دے رہی ہو۔ کسی کام سے باہر آتی سنیعہ کے کانوں تک اس کی بڑ بڑاہٹ پہنچی تو دوپٹے سے ہاتھ پوچھتی اس کے پاس آبیٹھی ۔ وہ بھی نئے سرے سے کھو لتا دماغ لیے اٹھ بیٹھی ۔ وہ ہی تمہارے ہشام بھیا، جنہیں دنیا میں صرف دو کام ہیں آفس میں جھک مارنا یا پھر سارا دن میرے کانوں میں یہ انڈیلنا کہ میں اپنی ذمہ داریاں تنہا نہیں پوری کر پاؤں گی۔ اس لیے دادی اور چچا کا کہنا مان کے خود غرض ہو جاؤں اور ہشام سے ہوئی منگنی کو شادی میں بدل دوں اور تمہارا مستقبل بھی تایا کے ہاتھ میں دے دوں، میں ایسا بالکل نہیں کروں گی۔ دو ٹوک لہجے میں کہتے ہوئے اس کے انداز میں بلا کی تلخی تھی۔ ” کہتے تو وہ ٹھیک ہیں ! ہم تمہاری ذمہ داری تو نہیں۔ وقت سے پہلے اگر ہمارے والدین چلے گئے تو اس میں تمہارا تو کوئی قصور نہیں۔ دادی کا سہارا ریت کی دیوار جیسا ہے اب ڈھے گئی کہ تب۔ ایسے میں کم سے کم تم تو اپنے گھر سدھارو ۔ اس کے سامنے آلتی پالتی مار کے بیٹھتے ہوئے وہ مدلل انداز میں بولی۔ مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم مایوس ہو کر بیٹھ جائیں۔ تمہیں پتا ہے نا بابا کتنے خود دار تھے۔ شدید ضرورت پہ بھی بھی خوشنود چچا کے آگے ہاتھ نہیں پھیلایا۔ کیوں بھول جاتی ہو کہ وہ ہمارے رشتے کے چچا ہیں۔ دور فضا میں اڑتے پرندوں یہ نگاہ جمائے وہ دل کی سب باتیں افسردہ لہجے میں کہتی چلی گئی۔ پھر بھی آپی! آپ یہ ذمہ داری اٹھائیں گی کیسے؟ آپ جانتی ہیں ہمارے گھرانے میں جاب کی اجازت نہیں۔ امرینہ کی اور میری پڑھائی، فہیم کا اسکول، ٹیوشن یہ سب دادی کی پینشن پر کیسے ہوگا۔“ اپنی گود میں رکھے ہاتھوں پہ نظر جمائے سمیعہ کہہ رہی تھی جبکہ اس کا دل سن کے کٹ رہا تھا۔ وہ ہے نا ہمار ا وارث ، وہ ضرور کوئی نا کوئی راہ نکالے گا۔ تم چھوڑو ان باتوں کو یہ بتاؤ دادی اور امرینہ ابھی تک نہیں آئیں ۔ یہ لوگ پینشن لینے گئی ہیں یا امریکا دریافت کرنے ۔ اس نے جان بوجھ کے لہجے کو خوش گوار بنا کے دادی کی بابت پوچھا۔ وہاں رش ہو گا اس لیے دیر ہوگئی ہوگی۔ آپ تو آئیں نا میں نے آلو کے سالن کے ساتھ روٹی بنائی ہے آپ اور میں کھاتے ہیں۔ فہیم تو کھا کے ٹیوشن بھی چلا گیا۔” ایسے زبردستی اٹھاتی وہ اندر لے گئی۔ یہ لوگ تین بہنیں تھیں ۔ سب سے بڑی وجیہہ جو پرائیوٹ ماسٹرز کرنے کے بعد پڑھائی چھوڑ چکی تھی۔ اس سے چھوٹی سنیعہ جو بی کام پارٹ ون میں تھی اور اس سے چھوٹی امرینہ جو ابھی میٹرک میں تھی۔ ایک سال پہلے عامر سلیمان اور فروہ بتول ایک ایکسیڈنٹ میں خالق حقیقی سے کیا ملے ان کی زندگیوں کو ویران کر گئے ۔ صفیہ خاتون تو ڈھےلیں اب تو ان کے قبر میں جانے کے دن تھے ۔ جن ہاتھوں نے انہیں قبر میں اتارنا تھا وہ خود چار کاندھوں پر سوار ہو کے سفر آخرت پہ جا چکے تھے۔ اب انہیں ہی ہمت پکڑنی تھی۔ عامر کی چھوڑی ہوئی ذمہ داریاں اب انہیں نبھانی تھیں ۔ گو سید حمایت علی شاہ ایک بڑے عہدے سے ریٹائر ہوئے تھے۔ ان کے بعد ان کی پینشن ایک معقول رقم پر مبنی تھی پھر بھی اچھی خاصی ان کی پینشن ان مسائل کے سامنے نا کافی لگتی بھی جو عامر کے بعد اس گھر کو درپیش تھے۔ گو دیوار کے ساتھ ان کے سگے بھانجے خوشنود علی کا گھر تھا جہاں چھ بیٹے تھے اور بے حد کھاتا پیتا گھرانہ تھا۔ مگر داری اپنے بیٹے کی خودداری کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ان حالات میں بھی کبھی اف تک نہیں کرتی تھیں۔
کس نے کہا تھا ایسے بندر کی طرح لٹک لٹک کر ادھر جھانکنے کو، اب بھگتو۔“ احتشام نے جیسے اسے گھر کا تھا۔ وہ دو سال کی بڑائی کو اکثر خاطر میں نہیں لاتا تھا۔ وہ انجینئر نگ کر رہا تھا۔ پھر بھی فطر تالا ابالی تھا۔ رٹو طوطے اب یہ سیب امی سے مت کہنا وہ بتول خالہ کے گھر گئی ہیں آتی ہی ہوں گی ۔ اس نے جیسے التجا کی تھی جس پہ احتشام نے بھنویں اچکا کے یوں لاپروائی ظاہر کی جیسے کہہ رہا ہو کہ سوچوں گا ہائے یہ کیا ہوا تمہیں ؟“ سکینہ بیگم جو ابھی ابھی لاؤنج میں داخل ہوئی تھیں ۔ احتشام کو ہشام کے پیر پہ پٹی کرتا دیکھ کے دہل گئیں۔ “ارے میری پیاری ماں! کچھ بھی تو نہیں ہوا مجھے۔ بس ذرا احتشام کے ساتھ کرکٹ کھیلنے چلا گیا تھا۔ صاحب زادے نے لکڑی کی گیند میرے پاؤں پہ کچھ اس زور سے ماری کہ ابھی بھی ہلکا ہلکا درد ہے۔“ اس نے کراہتے ہوئے سامنے بیٹھے احتشام پہ سارا الزام دھر دیا۔ سکینہ بیگم سر پر اوڑھی چادر نہ کرتی الماری کی طرف مڑ گئیں۔ ایک تو ذرا دیر کے لیے گھر سے کیا جاؤ میرے آنے تک کچھ نہ کچھ کر توت تم لوگ کر چکے ہوتے ہو۔ ہاشم اور تیمور پہلے ہی میری آنکھوں سے دور ہیں، بوڑھے ماں باپ کو ایک تم دونوں کا سہارا ہے اور تم لوگ ہو کہ تمھاری مستیاں ہی نہیں ختم ہوتیں۔ آبدیدہ لہجے میں وہ چادر کو الماری میں ٹا نگتے ہوئے مسلسل بول رہی تھیں۔ انہیں گھر میں اوڑھنے والی چادر نہیں مل رہی تھی ۔ وہ اگر پیچھے مڑ کے دیکھ لیتیں تو احتشام کی گھوریوں کا مطلب خوب سمجھ جاتیں ۔ دفعتا وہ ہشام کے پرس میں سے ہزار کا نوٹ نکال کے یوں ہو گیا۔ جیسے کہہ رہا ہو کہ جاؤ بخش دیا کیا یاد کرو گے ۔ سکینہ کو چادر مل چکی تھی وہ چادر اوڑھتی ان کی طرف مڑیں۔ احتشام فوراً کھڑا ہو گیا ۔ مبادا ہشام اس سے اڑائے ہوئے پیسے چھین نہ لے۔ “اماں! آپ تو ایسے پریشان ہیں جیسے انگلینڈ میں آپ کے بیٹے نہیں بیٹیاں ہیں۔ ارے میری بھولی ماں وہ دونوں وہاں خوش ہیں۔ تیمور بھیا تو ہاشم بھیا کی سالی سے شادی بھی رچا چکے ہیں۔ ۔ احتشام کے لیجے میں لا پروائی کا عنصر غالب تھا۔ جھک کر ان کے کاندھے پہ سر ٹکاتے ہوئے وہ انہیں اس احساس سے نکالنے لگا۔ ” کہتے تو تم ٹھیک ہو۔ انہوں نے کبھی واپس آنے کا نام تک نہیں لیا۔ چلو اللہ میرے بیٹوں کو ہمیشہ خوش رکھے اور تم دونوں کو تھوڑی سی عقل دے دے۔ اب ہٹو میں کچھ بنا لوں خوشنود آتے ہی ہوں گے۔ انہوں نے آتے ہی کھانے کا پوچھنا ہے۔ وہ ہمارے لیے اتنی محنت کرتے ہیں میں کیا ان کے لیے کھانا وقت پہ تیار نہیں رکھ سکتی ۔ وہ ایک تھپڑ لمبے احتشام کو لگاتے ہوئے بولیں۔ ”اوئے ہوئے چھوڑ دے ان کی پسند کے پکوان بنانے ہیں ہم بے چارے یونہی اس وہم میں مارے جاتے ہیں کہ ہماری اماں ہماری پسند کے کھانے بناتی نہیں ہیں ۔ اب کی بار خاموش بیٹھے ہشام نے ٹکڑا لگایا تھا، جس پہ احتشام بے اختیار قہقہہ لگا بیٹھا اور آنکھوں میں شرارت سموئے انہیں راستہ دیا۔ جبکہ شرمندہ کی سکینہ خاتون پھر سے گویا ہوئیں۔ “شرم تو نہیں آتی گھوڑے کے گھوڑے ہو گئے ہو اور ماں کو ایسے تنگ کر رہے ہو جیسے میرے بیٹے نہیں میری سہیلیاں ہوں۔ ہشام کے بچے، میں تمھیں لڑکی نظر آتی ہوں ؟ انہوں نے احتشام کو گھورتے ہوئے ہشام کو گھر کا تو دونوں کے چھت پھاڑ قہقہے گونجے تھے۔ سکینہ نے دل ہی دل میں اپنے بیٹوں کی خوشیوں کے دائمی ہونے کی دعا کی۔ کریہ ارے یار امی ! ہم سہیلیاں ہی تو ہیں آپ کی۔ اور آپ لڑکی ہی تو ہیں۔ لڑکیوں کے سر سینگ تو نہیں ہوتے۔ آپ ذرا سے بال کالے کر تو ۔ لیں۔ میک اپ کر لیں تو یقین جانیں چھوٹی بہن لگیں کی آپ ہماری ۔ احتشام پھر شروع ہو چکا تھا۔ لیکن اب کی بار سکینہ بیگم سنجیدہ ہو چکی تھیں۔ ہر وقت کا مذاق اچھا نہیں ہوتا ۔ ہشام اب تم کل جاب پہ مت چلے جانا کچھ دن آرام کرنا پھر میں تمھارے لیے سوپ بنا کے لاتی ہوں ۔ آیوڈیکس کی پٹی میں جکڑے پاؤں کو دیکھ کر وہ کمرے سے نکل گئیں۔ کے ” احتشام کے بچے بھو کے ندیدے کہیں کے یاد رکھنا یہ پیسے تمہیں ہضم نہیں ہونے والے۔
اس سے پہلے کہ چوری ہو جائیں یا کہیں گر جائیں یا تم ان سے جو بھی خرید کے کھاؤ وہ تمھارے پیٹ میں مروڑ بن کے پھرے شرافت سے میرے پیسے مجھے واپس کرو۔ “کون سے پیسے؟ تمہارے کھو گئے ہیں کہیں پیسے کیا ؟ کہیں تمہارے پیر کی چوٹ کا اثر دماغ تک تو نہیں پہنچ گیا۔ ٹھہرو چیک کر کے بتاتا ہوں ۔ اپنے ٹھنڈے یخ دوا کی بد بو والے ہاتھ اس کے ماتھے پہ دھرے یوں آنکھیں موند گیا جیسے واقعی مرض کا پتا لگا ہی لے گا۔ بھوکے، ندیدے، فقیر بٹ، جا کے ہاتھ دھو ۔ احتشام کا ہاتھ جھٹکتا وہ اپنے پیسوں پہ انا للہ وانا الیہ راجعون پڑھتا اسے ہاتھ دھونے کا کہنے لگا پھر یک لخت کچھ خیال آنے پر اسے روک بیٹھا ۔ “من مجھے کہا تھا ساتھ والوں کے ہاں انٹرنیٹ لگواتا ہے لگوایا کہ نہیں ۔“ سکینہ خاتون نے کبھی انہیں دادی کے گھر کے کسی کام سے منع نہیں کیا تھا مگر پھر بھی انٹرنی لگوانے کی فرمائش خالصتا امرینہ کی تھی۔ اور وہ گھر کے بزرگوں کو انٹرنیٹ کے نقصانات کے ساتھ ہونے والے فوائد پہ قائل نہیں کر سکتا تھا اس لیے یہ معاملہ راز رکھنا پڑا۔ کل ہی جا کے لگوا دیا ہے بھائی اگر اس کی ضرورت کیا تھی یہ سمجھ میں نہیں آیا۔ سرکھجاتے ہوئے احتشام وہ سوال پوچھ ہی بیٹھا جو کل سے دماغ میں کھلبلا رہا تھا۔ اصل میں امرینہ ڈراموں، فلموں کی رسیا ہے مگر تم تو وجیہہ کی انا سے واقف ہو ہر بار جب سے امرینہ ہمارے گھر سے کوئی ڈرامہ دیکھ کے جاتی ہے تو وجیہہ سے ڈانٹ کھاتی ہے۔ اب بچی آرام سے اپنی سے پسند کے ڈرامے تو دیکھ پائے گی نا ۔ اس نے صوفے پہ ہی نیم دراز ہوتے ہوئے کہا تو احتشام مسکرادیا۔ یہ تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو کبھی کبھی تو بھا بھی کا رویہ مجھے بھی الجھا دیتا ہے۔ سنیعہ جیسی تھیں لڑکی کی بہن تو لگتی ہی نہیں وہ کو آخری جملہ احتشام نے سرگوشی میں کہا تھا مگر ہشام بن چکا تھا۔ آہم آہم یہ میں کیا سن رہا ہوں۔ ذرا پھر سے بولنا ۔ دانستہ کان پہ دایاں ہاتھ رکھ کے یا سننے کی ایکٹنگ کرتے ہشام نے گلا کھنکارتے ہوئے پوچھا تو احتشام دانتوں تلے زبان دیا گیا۔ بہرے بادشا ہو! یہ کہ رہا ہوں کہ اب مجھے ہاتھ دھو ہی آنے چاہئیں ۔ وہ مسکراتا ہوا باہر کی طرف چل دیا جہاں ارحم اور ارقم ٹیوشن سے جبکہ خوشنود علی جاب سے آچکے تھے۔ جب سے خوشنود چچا کے ارحم اور ارقم ، وجیہہ کے پاس پڑھنے آنے لگے تھے ان کی دیکھا دیکھی محلے کے اور بچے بھی ٹیوشن کی غرض سے آنے لگے تھے۔ وجیہہ آدھا دن سوئی دھاگے اور فریم میں الجھی رہتی ۔ آدھا دن وہ بچوں کے ساتھ سرکھپائی ۔ قمیصوں پہ کڑھائی کا کام وہ کافی عرصے سے کر رہی تھی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کام میں پیسہ بھی منہ مانگا نہ سہی مگر کچھ معقول ملتا تھا۔ وہ الگ بات کہ کام مہینوں میں مکمل ہوتا تھا۔ سنیعہ نے کہا بھی کہ وہ کالج سے آگے ٹیوشن پڑھا دیا کرے گی مگر اس نے منع کر دیا اس کی پڑھائی میں وجیہہ کسی قسم کا خلل نہیں ڈالنا چاہتی تھی ۔ ابھی وہ سوئی دھاگا لیے صحن میں دادی کے برابر بھی چار پائی پر آ بیٹھی۔ ان کے آنگن کی سب سے اچھی بات یہ تھی کہ یہاں سارا دین دھوپ رہتی بھی ۔ دادی منہ پہ دو پٹا ڈالے سورہی تھیں ۔ تب ہی داخلی دروازے سے سنیعہ اور امینہ داخل ہوئیں۔ سنیعہ کی ہمیشہ سے یہ ہی روٹین تھی وہ امرینہ کو لے کے ہی گھر آتی تھی۔ اپنا وقت اس نے امرینہ کے ساتھ کن دقتوں سے مینج کیا ہوا تھا ایک الگ قصہ تھا۔ السلام علیکم حلوے کی کتنی پیاری خوشبو آرہی ہے یوں لگتا ہے۔ سکینہ چاچی ! آج گاجر کا حلوہ بنا رہی ہیں۔ اندر آتے ہوئے انہوں نے مشترکہ سلام کیا۔ سنیعہ تو چادر اور چپل بدلنے اندر چلی گئی۔ مگر امر ینہ اس کی چار پائی کے پاس کھڑی لمبا سانس لے کر صحن میں پھیلتی حلوے کی بھینی بھینی خوشبو کو محسوس کرنے لگی۔ ساتھ ہی اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ ندیدی کہیں کی دوسروں کے گھروں کی خوشبو پہ رال نہیں ٹپکاتے۔ چل اندر چل میں نے آج اروی بنائی ہے تمہیں روٹی ڈال دیتی ہوں وہ کھاؤ تم بھولو مت کہ ابھی تمہاری منگتوں کی طرح والی حرکت پہ میرا غصہ باقی ہے۔ اس نے چپل پاؤں میں اڑتے ہوئے ناصحانہ انداز میں کہا۔ ” آپی! اتنا تو ڈانٹ چکی ہیں تب سے آپ مجھے۔ اب آپ کچھ بھی کہو میں تو ارحم سے کاپی لینے کے بہانے ضرور وہاں جاؤں گی مجھے پتا ہے چاچی مجھے بھی حلوہ ضرور دیں گی۔ وہ ضدی انداز میں کہہ رہی تھی۔ وجیہہ کے دل سے ایک ٹیس اٹھی ۔ مہینے کا آخر تھا اور پیسے کا بھرم بمشکل قائم تھا۔ وہ اندر آ کے تازہ پھلکے ڈالنے لگی جب دادی کو چادر اوڑھتے ہوئے تیزی سے باہر نکلتے دیکھا۔ کچھ ہی دیر میں وہ گاجریں اور دو کلو دودھ لیے گھر میں داخل ہوئیں۔ بادام پستے وغیرہ پہلے ہی گھر میں تھے۔
دادی! آپ کو امرینہ کی عادت کا تو پتا ہے وہ خوشبو سے ہی للچانے لگتی ہے۔ وہ تو بچی ہے- آپ جاتی ہیں نا مینے کا آخر اس قسم کی عیاشی کی اجازت نہیں دیتا ۔ کھانا کھاتے ہی امر ینہ گاجریں دیکھ کے خوشی خوشی سمیعہ کے ساتھ کچن میں بھس گئی۔ جبکہ برتن سمیٹتی دادی کہنے لگی۔ وہ بچی ہی تو ہے۔ زندگی کی سختیوں کو بڑے تو سمجھ سکتے ہیں بچوں میں اتنا صبر و برداشت کہاں ہوتا ہے عامر نے بھی تم لوگوں کی کسی خواہش کو حسرت نہیں بننے دیا تھا میں کیسے بننے دوں ؟ دادی فرشی دستر خوان سے اٹھ کر بیڈ پہ لحاف اوڑھے بیٹھے دکھی لہجے میں بتاتی چلی گئیں ۔ وہ سمجھ سکتی تھی محبت انسان کی مجبوری ہوتی ہے۔ وہ بھی امر ینہ کو ایسے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ وہ برتن رکھنے کچن میں آئی تو ایک اور مسئلہ کشمیر چھڑا تھا۔ سنیعہ دادی سے حلوے کی ترکیب پوچھ کے آئی تھی جو کچن میں آنے تک بھول گئی تھی۔ اس سے مدد مانگی گئی اس نے یہ کہہ کے ہاتھ کھڑے کر دیے کہ بچے آنے والے ہیں۔ خوب امرینہ بھاگ کے اپنا موبائل لے آئی جہاں نیٹ کے ذریعے ایک لڑکی گاجر کا حلوہ اسٹیپ بائے اسٹیپ سکھا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں حلوہ بن بھی گیا۔ وجیہہ حیران رہ گئی۔ امرینہ کی بچی! یہ کیا تھا۔ نیٹ پہ یہ سب بھی ہوتا ہے؟ وہ واقعی ششدر رہ گئی تھی ورنہ نیٹ کے بارے میں اس کے خیالات سب بڑوں جیسے تھے۔ہاں آپی! اس سے لوگ چینل بنا کے عزت دار روز گار کماتے ہیں۔ جو لڑکیاں باہر نہیں نکل سکتیں وہ ایسے ہی چینل بنا کے رزق حلال کماتی ہیں۔ وہ اور بھی کچھ بتا رہی تھی مگر وجیہہ مان کہاں رہی تھی۔ وجیہہ نے اسی رات ہشام کو فون کر کے چینل بنانے کا کہا۔ گو ہشام ان دنوں جاب چھٹ جانے پہ کچھ پریشان تھا پھر بھی اس نے ان کا بھر پور ساتھ دینے کا وعدہ کیا ۔ چند ہی دنوں میں ان کے موبائل میں لاہوری کچن کے نام سے چینل بن چکا تھا۔ جسے پروموٹ کرنے کی ساری ذمہ داری ہشام نے اٹھائی تھی۔ پہلی بار انہوں نے چینل پر وڈیو ڈالی تھی۔ جس میں وجیہہ نے کوکنگ کی تھی جبکہ سمیعہ نے وڈیو بنائی تھی۔ بے حد لذیذ اور کھلی کھلی بریانی وجیہہ کے جہیز کے نفیس برتنوں میں بنائی اور سجائی گئی تھی۔ جھجکتے ہوئے اشیاء اور ترکیب بتاتے وجیہہ کا لہجہ کپکپاہٹ کا شکار تھا۔ گو سنیعہ نے کیمرہ چیزوں اور برتنوں پر فوکس کر رکھا تھا پھر بھی اس کا ہاتھ ہلکی کپکپاہٹ کا شکار تھا۔ جسے دوسرے ہاتھ سے تھامے وہ وڈیو بنانے میں مشغول تھی۔ پہلے مہینے ان کے چینل کو ہزار ویوز ہے۔ دوسرے ہی مہینے یہ تعداد بڑھ کر لاکھوں میں چلی گئی تھی۔ کیونکہ ہشام نے ان کے چینل کو پروموٹ کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی۔ ہشام کے ہی ایزی پیسہ اکاؤنٹ میں گوگل سے ملنے والی چینل کی پیمنٹ آنے لگی۔
رفتہ رفتہ حالات پہل سے سہل ترین ہو گئے تھے۔ سنیعہ، امیر ینہ اور فہیم کی فیس اب بڑی سہولت سے جاتی تھی۔ گھر میں نیا پینٹ کروایا گیا تھا۔ تین کمروں میں سے ایک کمرے کو خالی کر کے اس میں جدید طرز کے صوفہ سیٹ رکھے گئے تھے۔ ڈیزائن والا دبیز قالین ان کے ڈرائنگ روم میں بہار دکھانے لگا تھا۔ خوب صورت ڈیکوریشن پیسز گویا ڈرائنگ روم کو گھر کا سب سے الگ اور خوب صورت گوشیہ بنانے پہ تلے تھے۔ اب ہر وہ چیز ان کی پہنچ میں تھی جن کی پہلے وہ بس حسرت کر سکتے تھے۔ وجیہہ دن رات سجدہ شکر ادا کرتے نہیں تھکتی تھی ۔ وقت جیسے پر لگا کر اڑا تھا۔ بی کام کے بعد سمیعہ بینک میں جاب کر رہی تھی جب خوشنود چچا احتشام کا رشتہ سمیعہ کے لیے لے کر آ گئے ۔ دادی نے کچھ پس و پیش کے بعد ہاں کر دی۔ سمیعہ کی تنخواہ چونکہ گھر میں استعمال نہیں ہوتی تھی سو چند ماہ میں ہی جمع شدہ رقم سے سمیعہ کو شاندار جہیز کے ہمراہ رخصت کر دیا گیا۔ اس کے دو سال بعد امرینہ گریجویشن کر رہی تھی جب اس کا رشتہ چچی کے جاننے والوں میں طے کر دیا گیا۔ فہیم بہت ذمہ دار لڑکا تھا۔ وہ انجینئر نگ کے بعد جاب کی تلاش میں تھا۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ خالہ! اب تو ہمیں ہشام کی شادی کی تاریخ دے دیں اب تو آپ کی پوتی اپنی سب ذمہ داریاں نباہ چکی ہے۔ ہشام کا کاروبار بھی ماشاء اللہ بہت اچھا چل نکلا ہے ۔ جاب نہ ملنے پہ ہشام نے گارمنٹس کا کاروبار شروع کیا تھا جواب اچھا چلنے لگا تھا۔ سکینہ آج جیسے تاریخ لے کے ہی اٹھنے والی تھیں۔ سکینہ ! وجیہہ کل بھی تمہاری امانت تھی آج بھی ہے۔ مگر وہ حق بجانب تھی بڑی ہونے کے ناتے اگر وہ اپنے بہن بھائیوں کو اپنی ذمہ داری سجھتی تھی تو یہ اس کا حق تھا۔ پھر دیکھو خدا نے کیسے میری بیٹی کی راہیں ہموار کیں۔ کیسے رزق حلال کے راستے اس کے لیے کھولے۔ دادی کی آنکھیں فرط جذبات حمد سے جھلملا اٹھیں ۔ آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں خالہ ! مجھے فخر ہے جس نے آج یہ ثابت کر دیا کہ بیٹے اور بیٹی میں کچھ فرق نہیں۔ بلکہ بیٹیاں تو اتنی بہادر ہوتی ہیں کہ کا بازو بن کے زمہ داریاں نبھانے کی بھی صلاحیت رکھتی ہیں۔ خوشنود علی فخر سے کہتے ہوئے صفیہ خاتون کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔سنیعہ ، کہا تھا نا اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے۔ حالات سدھارنے پہ آئے تو پتھر سے راستہ نکال دیتا ہے۔ سمیعہ کی چھ ماہ کی منی سی ہانیہ کو کیلا کھلاتے ہوئے وجیہہ نے کہا۔ ” سچ کہتی ہو آپی! آج آپ کا یقین جیت گیا اور میرے خدشات ہار گئے۔ بے شک سب عزتیں اللہ کے اختیار میں ہیں۔ یہ سب حالات ہمت ہار کے بھی سنور جانے تھے مگر احسان کے بہت بھاری بوجھ تلے دب کے ۔ شکریہ اللہ کا کہ اس نے ہمیں سرخرو کیا۔ آپ نے ثابت کر دیا کہ بیٹیاں بوجھ نہیں ہوتیں ، اٹھانے پہ آئیں تو ماں باپ کے پورے کتبے کا بوجھ اٹھالیں۔ محبت پاش نظروں سے اسے دیکھتے ہوئے وہ دل سے اس کی ہمت کی قائل تھی۔ امرینہ نے چونکہ گریجویشن سے آگے پڑھنے سے انکار کر دیا تھا۔ سو وجیہہ کے ساتھ اس کی بھی شادی طے پا چکی تھی۔ ان اس ہی دنوں فہیم کو جاب مل گئی تھی۔ ان کی خوشیاں گویا دو چند ہو گئیں۔ وہ ان کی مہندی کی رات تھی جب صبح کے چار بجے وہ دادی کے ساتھ بیڈ پر آلیٹی۔ بیڈ پر دادی کے وہ ایک جانب وجیہہ تھی جبکہ ایک جانب امرینہ تھی۔ دادی اور امر ینہ سو چکی تھیں جب اس کے موبائل کی بیپ بچی۔ مسسز ہشام احمد ! شادی مبارک ہو۔ میج پڑھ کے وہ بے اختیار مسکرادی۔ “مسٹر ہشام احمد ! خیر مبارک لیکن آپ کو نہیں لگتا کہ یہ مبارک قبل از وقت ہے ۔ اس نے مسکراہٹ ضبط کرتے ہوئے لکھا۔ ” وقت اپنی سب کٹھنائیاں ہم پہ آزما چکا ہے۔ سپرگرل اب وقت کے ہاتھوں میں ہمارے لیے پھول ہی پھول ہیں ۔ اس کا مسیج پڑھ کے وہ بے اختیار مسکرا دی۔ موبائل تکیے کے نیچے گھساتے ہوئے اس کے ہونٹوں پر دل فریب مسکراہٹ تھی۔
0 Comments