Ad Code

Urdu stories in urdu writiings | shak ka hunar urdu kahani | urdu kahaniyan


Urdu bloging site rawalpindistudio

ایک روز کالج سے چھٹی کے بعد جب گیٹ سے باہر نکلی تو گاڑی کو ڈرائیور سمیت غائب پایا، سخت کوفت ہوئی میری عادت تھی کہ گیٹ سے باہر آتے ہی سیدھے گاڑی میں جا بیٹھتی اور ڈرائیور کی ذرا سی تاخیر پر چراغ پا ہو جاتی۔ تبھی اندلس بابا ہمیشہ چھٹی سے پندرہ منٹ قبل ہی کالج کے گیٹ پر پہنچ جاتا تھا۔ آج مگر گاڑی کا نام و نشان تک نہ تھا۔ آدھ گھنٹے میں کئی بار بار گیٹ سے باہر جھانکا۔ اس طرح بار بار جھانکنے میں سبکی تھی، تبھی میرے آنسو نکل پڑے۔ اسی لمحے گاڑی سامنے سے آتی دکھائی دی۔ کار کے اندر بیٹھتے ہی میں اُندلس پر برس پڑی۔ کہاں رہے گئے تھے بابا! کب کی چھٹی ہو گئی ہے کیوں اتنی دیر کر دی؟ میں رُوبانسی ہو رہی تھی شاد بی بی! پیچھے کسی وجہ سے ٹریفک بلاک تھا، تبھی دوسرے رستے سے آنا پڑا۔ ادھر بھی ریلیاں نکلی ہوئی تھیں۔ بڑی مشکل سے پہنچا ہوں۔ دانت پیس کر میں خاموش ہو گئی۔ اب کیا کہتی۔ غصے سے کنپٹیاں سُلگ رہی تھیں، پتھر سی بنی بیٹھی تھی۔ اپنی سوچوں میں گم سامنے سڑک پر کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔ اچانک گاڑی کو جھٹکا لگا اور بابا نے بریک لگائی تو ٹائروں سے زور کی آواز بلند ہوئی۔ گاڑی کسی چیز سے ٹکرائی تھی اور کوئی ہماری کار سے ٹکرا کر ایک طرف گرا تھا۔ تبھی وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اُسے چوٹ لگی تھی اور کہنیوں پر رگڑ وغیرہ بھی آئی تھی۔ ماتھے پر خون کی لکیر تھی۔ میں پہلے ہی غصے میں بھری بیٹھی تھی۔ یہ حادثہ ، سخت مضطرب کر گیا۔ دانت پیس کر بڑبڑائی۔ اندھے ہو گئے ہو ، دیکھ کر نہیں چلتے۔ ابھی اگر تو مر جاتا؟ ڈرائیور بابا نے چاہا کہ گاڑی سے اُتر کر اس کو تسلی دے، خیریت پوچهے مگر مجھے ایک لمحہ یہاں رُکنا گوارا نہ تھا۔ تب ہی میں نے چلا کر کہا۔ اندلس بابا! چلو چلو وہ مرا نہیں ہے جو اُتر رہے ہو، غلطی اسی کی تھی ۔ یہ کہہ کر میں نے کھڑکی سے سر نکال کر کہا۔ مرنا ہو تو کہیں اور جا کر مرو۔ ہماری گاڑی کے سامنے آ کر مرنے کا زیادہ شوق ہے کیا؟ اندلس بابا نے میرے بگڑتے موڈ کو دیکھ کر گاڑی تیز کر دی اور اس سے پہلے کہ سڑک پر دو چار لوگ اس نوجوان کی ہمدردی میں اکٹھے ہو جاتے ،وہ گاڑی نکال کر لے گیا۔ میں رستے میں بڑبڑاتی جا رہی تھی۔ مجھے اس بات کا ذرا بھی احساس نہ تھا کہ اس نوجوان کو کتنی چوٹ لگی ہے۔ اس کو واقعی چوٹ لگی تھی۔ ڈرائیور بابا نے بعد میں بتایا تھا ۔ خیر میں نے کوئی اثر نہیں لیا اور اگلے دن تک میں یہ واقعہ ذہن سے محو کر چکی تھی۔

کچھ دن گزرے کہ ایک روز جب امی ابو چھت پر سو رہے تھے، تقریباً رات کے نو دس بجے فون کی گھنٹی بجی۔ میں نے کال سنی۔ اُس روز آپ نے تو مجھے اگلے جہاں پہنچانے کی ٹھان لی تھی اور پھر میری خیریت بھی نہیں پوچھی۔ اس بات کا شکوہ کرنے کے لئے فون کیا ہے۔ آپ کو ہماری گاڑی کے سامنے آنے کو کس نے کہا تھا۔ کیا مرنے کا بہت شوق ہے؟ مجھے مرنے کا اس قدر شوق نہیں ہے۔ آپ کی صورت دیکھ کر کھو گیا تھا، تبھی کار کے روبرو آنے کا پتا نہ چلا۔ لیکن آپ کی سنگ دلی دیکھ کر حیران ہوں۔کیا خوب صورت لوگ اس قدر سنگ دل ہوتے ہیں؟ ایک لمحے کو تو سمجھی نہیں تبھی یاد آ گیا کہ یہ وہی نوجوان ہے جو غلطی سے ہماری کار کے نیچے آتے آتے بچا تھا دیکھ کر چلا کرو۔ یہ کہہ کر میں فون بند کرنے کو تھی کہ میرے کانوں میں آواز آئی۔ اللہ نے اچھی شکل دی ہے تو اس پر اتنا گھمنڈ کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ اللہ چاہے تو اس اچھی شکل کو بدصورت بھی کر سکتا ہے۔ اس کی بے ہودہ گفتگو سُن کر اور غصہ آیا اور میں نے فون بند کر دیا۔ ذرا دیر بعد پھر گھنٹی بجی۔ میں نے ریسیور اٹھا کر نیچے رکھ دیا اور جا کر لیٹ گئی۔ ذہن سُلگ رہا تھا ۔ رات میں دیر تک کروٹیں بدلتی رہی، صبح بیدار ہوئی توسر میں ہلکا ہلکا درد تھا۔ طبیعت مضمحل ہو رہی تھی۔ جی چاہا کالج نہ جائوں تبھی امی کمرے میں آ گئیں اور بولیں۔ شاداب آج کالج مت جائو۔ تمہارے چچا دبئی سے آ رہے ہیں، اُن کے لئے کچھ تیاری کرنا ہے، سامان بھی خریدنے جانا ہے۔ نہا دھو کر میں تیار ہو گئی اور ناشتے کے بعد امی نے لسٹ پکڑا دی کہ اُندلس بابا کے ساتھ جا کر یہ سامان لے آئو۔ میں نے کچھ دوسرے کام کرنے ہیں۔ میں نے لسٹ پر نظر ڈالی۔ گھر کے قریب ہی جنرل اسٹور تھا۔ میں نے بابا سے کہا۔ یہیں رُک کر کچھ سامان لے لیتے ہیں، باقی بازار سے لیں گے۔ جونہی میں جنرل اسٹور پر پہنچی بغیر سر اُٹھائے لسٹ میں سے چیزوں کے نام بتانے شروع کر دیئے ۔ جب سر اُٹھایا، تو سامنے وہی مضروب بیٹھا تھا ، جو اس دن ہماری گاڑی سے ٹکرایا تھا۔ اس کے ماتھے پر زخم کا نشان تازہ تھا۔ اُسے دیکھ کر میرا رنگ اُڑ گیا۔ اُس نے مسکرا کر سلام کیا۔ میں بغیر سلام کا جواب دیئے فوراً ہی اسٹور سے اُتر آئی۔ اس کی مسکراہٹ ایسی زہریلی اور طنز بھری تھی کہ میرا سارا وجود بی سُلگ اٹھا۔ تب ہی میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں اس کے خلاف کوئی نہ کوئی ایکشن ضرور لوں گی۔ اگر اس نے دوباره مجھے فون کیا تو میں اس کی شکایت ابو سے کر کے اسے پولیس کے حوالے کر دوں گی۔ میں نے تمام خریداری صدر بازار سے کی اور جب گھر پہنچی تو امی کو انتظار میں پایا۔ انہوں نے کہا۔ جلدی جلدی مہمانوں والا کمره درست کر دو وہ لوگ آنے والے ہیں۔ چچا چچی کی فیملی مختصر تھی لیکن امی نے تو اتنا اہتمام کیا تھا جیسے کوئی بڑا کنبہ آنے والا ہو۔ امی کا اہتمام درست تھا چچا چچی کے ساتھ ایک اور فیملی بھی آئی تھی۔ یہ لوگ دبئی سے ان کے ساتھ آئے تھے، اپنے کزن راحیل اور اس کی بہن سونو کے ساتھ- ان کو جانتی تھی مگر ان کے ہمراہ انکل فدا کے بیٹے منصور اور اس کی بہن ماہم سے ملاقات پہلی دفعہ ہوئی تھی۔ ہمارے گھر میں رونق ہوگئی۔ راحیل ہنس مکھ اور شوخ قسم کا لڑکا تھا، جب کہ منصور اور ماہم پُرتکلف اور لئے دیئے رہنے والے تھے۔انہوں نے کھانا کھانے کے بعد آرام کیا اور شام کو راحیل نے کہا شاد گاڑی میں بیٹھو، سونو اور ماہم کو شاپنگ کروانی ہے۔ جونہی ہم گاڑی میں نکلے اچانک ایک نوجوان سامنے آ گیا۔ وہ ہمارے بنگلے سے کچھ دُور سڑک پر کھڑا تھا۔ اس بار بھی وہ بچ گیا۔ مجھے اتنا غصہ آیا کہ میرے آنسو نکل آئے۔ یہ وہی نامعقول تھا۔ لگتا تھا کہ وہ اچانک نہیں آیا بلکہ صدیوں سے اسی جگہ ساکت کھڑا تھا۔

ہماری گاڑی کے نیچے آنے کے لئے وہ پتھر سا ہوگیا تھا۔ راحیل نے ڈرائیور سے کہا بابا دیکھو کیا ہوا ہے؟ تبھی میں نے مجنوں کو گھورا۔ وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے ہماری طرف دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرا رہا تھا۔ وہ ڈھیٹ اپنی اس حرکت پر ذرا سا بھی پریشان نہیں تھا۔ یہ دوسری بار ہے، خُدا کی پناہ۔ اسے مرنے کا کتنا شوق ہے۔ اب تو میں ضرور اس کی شکایت کروں گی۔ غصے سے میری کنپٹیاں سُلگ اٹھیں۔ ہمارے گھر مہمان موجودتھے سوچا یہ جائیں گے تو اس کی خبر لوں گی۔ ماموں کا گھر قریب تھا۔ ان کا بیٹا امجد بی اے میں پڑھتا تھا۔ وہ مزاج کا بہت تیز تھا اور کردار کا بھی صحیح نہ تھا ۔ میں سوچنے لگی کہ ابا جان کی بجائے کیوں نہ میں امجد کی خدمات حاصل کر لوں۔ اس اسٹور والے کی شکایت اسی سے کردوں۔ وہ اپنے غنڈے قسم کے دوستوں کی مدد سے اس کی بیچ سڑک پر ٹھکائی کریں گے تو اس کا دماغ درست ہو جائے گا۔ امجد تو ان کاموں کا ماہر تھا۔ أس روز شام کو باہر شور سنا۔ تب بى اندلس بابا نے آ کر بتایا کہ امجد اور اس کے دوستوں کی کسی بندے سے لڑائی ہوئی ہے اور انہوں نے ایک لڑکے کو سڑک پر مارا ہے۔ اس بیچارے کو اسپتال لے گئے ہیں۔ یہ سُنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی اور آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا۔ مجھے گمان بھی نہ تھا کہ امجد اتنی جلدی یہ کام کر دے گا۔ بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور جا کر اپنے بستر پر گر گئی ۔ اوہ میرے خُدایا! یہ کیا ہوا؟ اب مجھے معاملے کی سنگینی کا شدت سے احساس ہوا۔ خواہ مخواہ میں نے ایک انسان کو پٹوایا۔ خدا جانے انہوں نے اس کی کیا حالت کر دی ہے۔ یاخُدا اب کیا کروں؟ کیسے اُس کے احوال پتا کروں؟ نہ چاہتے ہوئے بھی دل بے چین ہوگیا۔ سوچا ڈرائیور بابا سے کہوں کہ اسٹور پر اس نیلی شرٹ والے کا حال پوچھ آئولیکن پھر خیال آیا بابا پوچھے گا کہ کیوں؟ تمہیں کسی کا حال پوچھنے کی کیا پڑی ہے؟ پھر کیا کروں؟ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہی تھی ۔ اب تو مجھے چین ہی نہیں آ رہا تھا۔ جب کسی کل چین نہ آیا تو میں نے خود ہی اس کا حال معلوم کرنے کا ارادہ کر لیا۔ بغیر کسی کو کچھ بتائے میں گھر سے نکل پڑی۔ اسٹور پر پہنچی تو سامنے ہی راج نظر آ گیا۔ ہنستا مسکراتا ہوا آج وہ نیلی شرٹ اور کالی پینٹ میں نہیں تھا بلکہ سفید شلوار میں ملبوس تھا۔ وہ بالکل ٹھیک ٹھاک تھا۔ یقیناً اُس کی پٹائی نہیں ہوئی تھی، ورنہ وہ اسٹور پر ایسے ہشاش بشاش نہ بیٹھا ہوتا۔ جان لیا میں نے کہ کسی اور کی شامت آ گئی ہے ۔ یہ سوچتے ہی میرے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ جلتي سُلگتی گھر لوٹی۔ امجد آیا ہوا تھا۔ کہنے لگا تم کہاں تھیں کزن! تم نے مجھے مروا دیا۔ میں نے نیلی شرٹ والے کی اتنی شامت بلائی ہے کہ اب میری شامت آ گئی ہے۔ وہ آدھ موا اسپتال میں پڑا ہے اور مجھ پر ضرور پولیس كيس بنے گا۔ ماموں جان کہاں ہیں؟ میں نے پوچھا ابا جان پولیس سےمعاملہ طے کرنے گئے ہیں۔ ایک لاکھ کا خرچہ پڑ گیا ہے۔ میں کیا کہتی، گم صم اور حیرت میں ڈوبی رہی۔ جس کو سبق سکھانا تھا وہ بھلا چنگا اسٹور پر بیٹھا تھا۔ جس کی شامت بلائی گئی تھی، جو مفت میں پٹ کر اسپتال پہنچ گیا تھا ،وہ بیچارا کوئی اور تھا اتفاق سے نیلی شرٹ اور کالی پینٹ پہن کر اسٹور پر آ گیا تها. آه غلطی پر غلطی ہو رہی تھی۔

کتنا نقصان ہو گیا تھا۔ میں اندر سے سہم گئی تھی لیکن امجد؟ میں نے اس کی جانب دیکھا۔ اُسے کچھ بھی ملال نہ تھا۔ وہ پرسکون سا بغور میرے چہرے کو پڑھ رہا تھا۔ اُس کی چبھتی نگاہوں کے تیروں سے بچنے کے لئے، میں پھر اپنے کمرے میں جا بیٹھی۔ میں نے ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ یا الله یہ کیا ہو رہا ہے؟ میں کسی عذاب میں گرفتار ہوگئی تھی۔ وہ رات میں نے کانٹوں پر بسر کی۔ تمام رات مجھے مجھے نیند نہیں آئی، اگلے روز کالج سے لوٹی تو پتا چلا کہ ماموں ممانی اپنے اس ناہنجار سپوت امجد کا رشتہ لائے ہیں میرے لئے۔ حیرت اور دُکھ سے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ دکھ اس بات کا کہ ماموں نے میرا رشتہ اپنے آوارہ اور لوفر بیٹے کے لئے مانگا تھا، جبکہ ان کو پتا تھا کہ میرے والدین کبھی بھی اس رشتے کو قبول نہیں کریں گے۔ والدین نے صاف انکار کر دیا، اس پر امجد نے دھمکی بھجوائی کہ میں شاداب کو بدنام کر دوں گا۔ پھر دیکھنا کون اس کو بیاہنے آتا ہے ؟ یہ سن کر امی اور ابو خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔ ایسے میں ایک بیٹی کے باپ کو جو کرنا چاہئے ، انہوں نے وہی کیا۔ انہوں نے میرے رشتے کے لئے تگ و دو شروع کر دی تا کہ جلد از جلد وہ میرے فرض سے سبکدوش ہوجائیں۔ ماموں سے بھی شکایت کی گئی، لیکن وہ سب چکنے گھڑے تھے، ان پر کیا اثر ہونا تھا۔ یہ حالات راج کے حق میں بہتر ثابت ہوئے ۔ اس نے اپنے والدین کو راضی کیا کہ وہ میرا رشتہ مانگیں۔ ایک محلے دار کے توسط سے یہ لوگ ہمارے گھر رشتہ مانگنے آئے۔ راج کا گھرانہ مدتوں سے یہاں رہائش پذیر تھا اور تمام محلے دار ان کو بہت اچھی طرح جانتے تھے۔ والد صاحب کو اس خاندان کے بارے اچھی رپورٹ ملی اور لوگوں نے لڑکے کے بارے میں بھی بہت اچھی رپورٹ دی۔ والد صاحب نے ہر طرح سے اطمینان کر کے رشتہ منظور کر لیا اور میری منگنی راج سے ہو گئی۔ منگنی کے بعد راج نے مجھ سے فون پر رابطہ رکھا۔ تقریباً ہم روز بات کرتے تھے۔ اسے مجھ پر پورا بھروسہ تھا۔ وہ ملازمت کی تلاش میں تھا۔ کہتا تھا، دعا کرو مجھے اچھی ملازمت مل جائے۔ ابو جان اسی تگ و دو میں لگے ہوئے ہیں۔یہ وہی راج تھا جسے میں نے پہلی نظر میں مسترد کیا تھا۔ وہ اب دل میں گھر کر چکا تھا۔ اس نے میرے دل میں جگہ بنا لی تھی۔ اس سے فون پر باتیں کرتی تھی اور بھی اچھا لگتا تھا۔ سوچتی تھی جس سے نفرت کرتی تھی، خدا نے اسی کو جیون ساتھی بنا دیا ہے ۔ کیسی انہونی ہو گئی ہے۔ خدا کی قدرت ہے یہ بھی۔ ایک دن راج نے مجھے فون کیا ۔ اس کا لہجہ ٹوٹا ہوا سا تھا ۔ کہنے لگا، شاداب برا مت ماننا ایک بات کہوں؟ مجھے شک سا ہے کہ کہیں امجد سے تم نے کسی موڑ پر بے وفائی تو نہیں کی۔ یہ سننا تھا کہ میرے ہاتھ پائوں کانپنے لگے اور فون ہاتھ سے چھوٹ کر گر گیا۔ میں نے بڑی مشکل سے خود کو سنبھالا اور فون بند کر دیا۔ سوچنے لگی سچ کہتے ہیں ،ہر مرد شکی ہوتا ہے پھر جب ایک بار شک مرد کے دل میں بیٹھ جائے تو یہ ناگ کبھی نہ کبھی ضرور خوشیوں کو ڈس لیتا ہے۔تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ گھنٹی بجی، میں نے فون اٹھایا۔ میرا خیال درست تھا یہ راج تھا۔ تم بُرا مان گئی ہو شاداب مجھے معاف کر دو۔ میں نے تو یونہی بات کہہ دی تھی۔ آخر تم بھی ایک عام مرد ثابت ہوئے۔ اگر کسی رشتے کی بنیاد جھوٹ پر رکھی جائے تو وہ آگے چل کر پائیدار ثابت نہیں ہوسکتا۔ بہتر ہے تم فوراً یہ رشتہ ختم کر دو، ورنہ آگے چل کر تمہارے طعنے میری زندگی برباد کر دیں گے۔


وہ بہت پریشان ہوا۔ پلیز شاداب مجھے معاف کر دو۔ جو بات ، جو وسوسہ میرے دل میں کھٹک رہا تھا، میں نے کہہ دیا ہے۔ تم میرے لہجے کی سچائی کو سمجھو۔ بس اتنا کہہ دو سب غلط ہے۔ تم سچ بات دہرا تو سکتی ہو۔ میں تم کو کوئی تکلیف دینا نہیں چاہتی لیکن شک کی بنیادوں پر قائم رشتہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا۔ تم کو منگنی کے بندھن سے آزاد کرنا چاہتی ہوں۔ ایسا کہتے ہوئے میں رو رہی تھی تبھی میں نے فون رکھ دیا۔ اپنے کمرے میں آ کر خوب روئی اس بات کے تقریباً آدھ گھنٹے بعد راج اور اس کے والدین ہمارے گھر آ گئے۔ اس کے والدین مجھ سے اپنے بیٹے کی جانب سے معافی مانگنے آئے تھے۔ بزرگوں کا بھلا کیا قصور ؟ ان کا معافی طلب کرنا میرے لئے بڑی بات تھی۔ میں نے آنٹی اور انکل سے کہا مجھے شرمندہ نہ کیجئے۔ میں نے راج کو معاف کیا۔ اسی دن انہوں نے میرے والدین سے شادی کی تاریخ لے لی اور دونوں گھروں میں شادی کی تیاریاں ہونے لگیں۔ ہم چپکے چپکے تیاریاں کر رہے تھے۔ ماموں کے گھرانے سے کسی شرارت کا خدشہ تھا۔ خدا نے ہمیں ملانا تھا تو ہماری شادی کا سہانا دن بھی بخیر و خوبی گزر گیا۔ میں دلہن بن کر راج کے گھر آ گئی ۔ اللہ نے اس کا خواب پورا کیا اور مجھے بھی اس کے حسین خواب کی صورت میں تعبیر ایک اچھے شوہر کے رُوپ میں مل گئی۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد چچا جان نے واپس وطن آنے کا فیصلہ کر لیا اور یہ لوگ دبئی چھوڑ کر پاکستان لوٹ آ ئے۔ انہوں نے ہمارے گھر کے نزدیک ہی بنگلہ لے لیا۔ راحیل کی ابھی تک شادی نہ ہوئی تھی۔ ایک روز امی نے وجہ پوچھی تو چچی کے منہ سے بے اختیار نکل گیاکہ دراصل راحیل شاداب سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ وہ ہم سے کہتا رہا مگر ہم سے کوتاہی ہوئی، ہم نے رشتہ مانگنے میں دیر کر دی اور شاداب کی شادی راج سے ہوگئی۔ اس وجہ سے راحیل نے ابھی تک شادی نہیں کی۔ وہ کہتا ہے شاداب جیسی لڑکی ملے گی تو شادی کروں گا ۔ میں تو لڑکیاں دیکھ دیکھ ہار بیٹھی ہوں۔ اسے کوئی پسند ہی نہیں آتی۔ بھابھی تم ہی شاد بیٹی کو کہو کہ وہ راحیل کو سمجھائے۔ شاید اس کے سمجھانے سے یہ شادی کر لے اور ہم اس کی خوشیاں دیکھ پائیں۔ ہمیں خبر نہ تھی کہ اسی وقت راج آ جائیں گے اور وہ چچی کی باتیں سُن لیں گے۔ میں نے مڑ کر دیکھا ان کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا اور وہ بے حس لگ رہے تھے۔ مجھے چچی کی باتوں پر ندامت ہوئی۔ میں نے آرزو کی کہ کاش! وہ یہ باتیں نہ کہتیں، اگر کہہ دی تھیں تو کاش کہ راج نے نہ سنی ہوتیں ۔ اس کے بعد وہ مجھ سے کھنچے کھنچے رہنے لگے۔ منہ سے کچھ نہ کہا لیکن میں سمجھتی تھی کہ ان کے دل میں کانٹا چبھ گیا ہے جو خلش بن کر ان کو بے چین رکھتا ہے۔ انہی دنوں شادی کے چھ سال بعد میں امید سے ہوگئی۔ انہی دنوں راج کا تبادلہ دوسرے شہر ہوگیا۔ وہ چلے گئے اور میں پیکنگ کرنے میں مصروف ہوگئی کیونکہ سامان کی پیکنگ کے بعد مجھے بھی ان کے پاس جانا تھا۔ پیکنگ کرتے ہوئے ایک روز مجھے چکر آیا اور میں لیٹ گئی، امی کو فون کیا کہ میری طبیعت خراب ہوگئی ہے آپ آجایئے اور مجھے اسپتال لے جایئے۔ ان کے گردے میں تکلیف تھی چچی ان کو اسپتال لے گئیں اور راحیل کو میرے پاس بھیج دیا کہ تم شاداب کو اسپتال لے آئو۔ اس وقت راحیل کے سوا اور کوئی نہ تھا جو میری طرف آتا۔ راحیل نے اسی وقت گاڑی نکالی اور میرے پاس آ گئے۔ میں نڈھال پڑی تھی ، اس نے سہارا دے کر گاڑی میں بٹھا دیا۔ اسپتال میں مجھ کو طبی امداد اور کچھ دوائیں دے کر رُخصت کر دیا گیا۔ جب ہم گھر واپس لوٹے تو راج دروازے کے باہر انتہائی اضطراب کے عالم میں ٹہل رہے تھے۔ مجھے راحیل کی گاڑی سے اُترتے دیکھا توان کا چہرہ متغیر ہوگیا۔



مجھے تو چکر آ رہے تھے اور راحیل نے مجھے سہارا دیا ہوا تھا۔ میں سے شوہر کو بتایا کہ راج! اچانک میری طبیعت خراب ہو گئی مجھے ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے۔ انہوں نے ماتھے پر بل ڈاللیے تب راحیل پریشان ہو گیا راج نے اُسے گھر کے اندر آنے کا بھی نہیں نہیں کہا وو باہر سے ہی خدا حافظ کہہ کر چلا گیا۔ جونہی ہم گھر میں داخل ہوئے راج نے میری طبیعت کے بارے میں بھی نہ پوچھا بس مجھ پر برس پڑے کہ مجھے پہلے ہی شک تھا۔ امجد نے ٹھیک کہا تھا کہ تمہاری بیوی اور راحیل آپس میں شادی کرنا چاہتے تھے مگر شاداب کے والدین نے ان کی آرزوئوں کو خاک میں ملا دیا۔ یہ سراسر جھوٹ تها مگر راج اس بات کو ماننے پر تیار نہ تھے۔ بولے کہ آج میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ میرے جاتے ہی تم اپنے پسندیدہ کزن کے ساتھ گھومتی پھرتی ہو۔ ان کا منہ دیکھتی رہ گئی۔ سمجھ نہ پا رہی تھی کہ یہ کیا کہہ رہے جبکہ ہمارے درمیان سرے سے ایسی کوئی بات تھی ہی نہیں، میں نے اپنے جیون ساتھی کو سمجھانے اور یقین دلانے کی بہت کوشش کی کہ ان کی غلط فہمی ہے۔ اپنے شک پر اپنے بچے کو قربان مت کرو۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ وہ اُمید کے اس پھول کو بھی اپنا نام دینے پر راضی نہ تھے اور یہ ایک شریف اور بے قصور بیوی کے لئے کتنے بڑے صدمے کی بات ہو سکتی تھی جس نے اپنے شوہر کے سوا کسی سے کبھی محبت نہ کی ہو۔ وہ مجھے طلاق کی دھمکیاں دینے لگے، تب اپنی نسوانیت کی تذلیل پر میں نے خود ان سے علیحدگی اختیار کر لی۔ میں نے سوچا جو شخص میرے بچے کو اپنا بچہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں ، مجھے اس کا سایہ بھی اب اس بچے پر نہیں پڑنے دینا چاہئے اور پھر میں نے ایسا ہی کیا۔ آج راج اپنے بیٹے کی صورت دیکھنے کو ترستا ہوگا اور میں اس کی صورت دیکھنے کو ترس رہی ہوں۔ شاید اسے کبھی غلطی کا احساس ہوا ہو۔ میرے والد صاحب نے کافی جائیداد چھوڑی تھی ، سو مجهے کبهی مالی پریشانی کا سامنا نہیں کرنا پڑا ،مگر میں سوچتی ہوں کہ جن عورتوں کے پاس گزر بسر کرنے کے وسائل بھی نہیں ہوتے اور ان کے شوہر ان کو محض شک کی بنیاد پر چھوڑ دیتے ہیں ان پر کیا گزرتی ہوگی ۔

Post a Comment

0 Comments

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();