Ad Code

Urdu novel story for adult | beautiful stories in urdu | Moral stories in urdu for adults with moral lesson


امی کی طبیعت ٹھیک نہ تھی۔ میں اور میرا بھائی ان کو اسپتال لے کر گئے تو پہلی بار ہم نے اسے دیکھا۔ اس کا نام ثریا تھا اور وہ نرسنگ کی ٹریننگ کے لئے وہاں آئی ہوئی تھی۔ جس شعبے میں امی کا چیک اپ ہوتا تھا، نرسنگ ٹر ینگ کی عمارت وہاں سے قریب ہی تھی۔ ثریا بہت خوب صورت تھی ۔ چودھویں کا چاند کہوں تو بے جا نہ ہو گا۔ اتنی حسین صورت میں نے زندگی میں کبھی نہیں دیکھی ۔ بھائی بھی اسے بغور دیکھ ر ہے تھے۔ اس کا حسن ایسا ہی تھا کہ نظر ایک بار ٹک جاتی تو پھر ہٹتی نہ تھی۔ اتفاق کہ امی کا چیک اپ کرنے کو وہ بھی ڈاکٹرکے ساتھ آ گئی، فائل اس کے ہاتھ میں تھی۔ جو تفصیل ڈاکٹر بتاتی جاتی تھیں وہ اس پر لکھتی جا رہی تھی ۔ جب ہم اسپتال سے نکل رہے تھے وہ ہم کو دوسری بار راہداری میں مل گئی۔ میں نے کہا کہ امی کے بارے اگر ڈاکٹر صاحبہ سے بات کرنی ہو تو بتا دیں کہ کس نمبر پر ٹرائی کریں ؟ بولی آپ میرا نمبر لے لیں جو بات کرنی ہو میں کرا دوں گی اور جس دن آپ کو اسپتال آنا ہو مجھے مطلع کر دیں تو آپ انتظار کی زحمت سے بچ جائیں گی۔ ثریا کے ساتھ فون پر بات ہوئی ، جب ہم اسپتال جاتے وہ ہماری کافی معاونت کرتی ۔ یوں اس کی ہماری دوستی ہوگئی۔اس کی ٹرینگ مکمل ہو چکی تھی اور اب واپس جانے کا سوچ رہی تھی۔ اس نے امی کو بتایا کہ آٹھ سال کی تھی جب امی ابو میں اختلاف ہوا ۔ میرے والد صاحب نے والدہ کو طلاق دے دی اور دوسری شادی کر لی۔ جب سے اب تک ہمارا ان سے کوئی رابطہ واسطہ نہیں ہے۔ امی نے ہم دونوں بہنوں کو ان سے لے لیا تھا۔ وہ خرچہ بھی نہ دیتے تھے۔ بڑی مشکلات میں ماں نے ایف اے تک تعلیم دلوائی اور نرسنگ ٹریننگ کے لئے میں یہاں آ گئی۔ امی ہماری ہمدرد واقع ہوئی تھیں۔ انہوں نے ثریا کو بیٹی بنا لیا۔ یوں اس کا کبھی کبھار آنا جانا رہتا۔ پھروہ لاہور سے اپنے شہر سیالکوٹ چلی گئی۔ کچھ عرصہ تک اس نے کوئی رابطہ نہ کیا۔ ایک دن اچانک اس کا فون آیا کہ وہ اپنی والدہ اور بہنوں کے ساتھ لاہور شفٹ ہو گئی ہے کیونکہ اس کی ملازمت ہو گئی ہے۔ وہ اسپتال میں کوارٹر حاصل کرنے کی بھی کوشش کر رہی تھی۔ فی الحال انہوں نے کرایہ پر مکان لیا تھا- خوبصورت ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اچھی عادات کی مالک بھی تھی۔ ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھی۔ امی سے پیار کا اظہار کرتی تو میری والدہ بھی اسے یاد کرتی رہتیں اور جب وہ کبھی کئی دنوں تک نہ آتی تو مجھے کہتیں ۔ رمشا ثر یا کوفون تو کرو۔ کیا وجہ ہے کہ ابھی تک نہیں آئی۔ عید پر اس کے لئے کوئی نہ کوئی تحفہ یا جوڑا لے کر رکھتی تھیں۔ غرض ماں جیسے بیٹی کو چاہتی ہے ویسے ہی ثریا کا خیال رکھتی تھی۔ میرے علاوہ اشعر بھائی کے پاس بھی اس کا نمبر تھا جب میں مصروف ہوتی امی بھائی سے ثریا کا نمبر ملوا لیتیں اور باتیں کرتیں۔ امی کو اپنی صحت کے بارے تشویش تھی اور ثریا ان کو اس لحاظ سے گائیڈ کرتی رہتی تھی۔ اتفاق سے اشعر بھائی کا آفس بھی اس اسپتال کے ہی نزدیک تھا جہاں اسے نوکری ملی تھی۔ ہیں وہ اس سے ملنے ایک دو بار اسپتال گئے ۔ نجانے کب فون پر دونوں میں دوستی ہو گئی کہ بھائی ہم سے بتائے بغیر اس کے گھر بھی آنے جانے لگے۔

ان کی ملاقاتوں کا سلسلہ دو سال تک چلا لیکن انہوں نے ہم کو کانوں کان خبر نہ ہونے دی۔ وہ ویسے ہی ہمارے گھر کبھی کبھی آتی ۔ امی سے اور مجھ سے مل کر چلی جاتی ۔ ایک دن مجھے کچھ شک سا ہوا کہ بھائی چپکے چپکے کسی لڑکی سے فون پر باتیں کرتے ہیں۔ میں نے ذرا ٹوہ لگائی تو انہوں نے بتادیا کہ ثریا فون کرتی ہے۔ کیا اسے پسند کر لیا ہے بھائی؟ تو وہ بولے ہاں ایساہی سمجھ لو کبھی نہ کبھی کسی سے شادی تو کرتی ہے۔ یہ بھی اچھی ہے تم اس کے بارے سوچو پھر امی کو منا لیں گے۔ میں بھائی کی باتیں سن کر کچھ گم صم ہوگئی۔ کیونکہ جانتی تھی کہ میرا بھائی ایسا ویسا نوجوان نہیں، اس کا یہی مطلب تھا کہ وہ سنجیدہ ہو چکے تھے۔ بھائی کی پسند میرے والدین کے لئے ایک بہت بڑا مسئلہ تھا۔ میں نے بھائی سے کہا۔ بھائی امی ابو آپ کی شادی اپنوں میں کرانا چاہتے ہیں بلکہ امی تو چاچا حیدر کے گھر بات بھی کر چکی ہیں۔ وہ ثریا سے شادی کے لئے کبھی نہ مانیں گی۔ میری بات بھی صحیح تھی ۔ وہ چپ ہو گئے۔ مجھے کوئی جواب نہ دیا۔ بہرحال میں نے ان کے کان میں یہ بات تو ڈال دی تھی کہ بھائی جان آپ ذرا سنبھل کر چلیے گا۔ والدہ کو میں نے بتانا ضروری سمجھا کہ بات بڑھنے سے پہلے بھائی کو تھام لیں۔ مجھے ڈر تھا کہ ابو کو پتہ چلا تو بہت ناراض ہوں گے اور عجیب صورت حال پیدا ہو جائے گی۔ امی نے بات اپنے تک نہ رکھی اور باتوں باتوں میں والد کے گوش گزار کر دی کیونکہ وہ باتیں اپنے شریک زندگی سے نہ چھپاتی تھیں۔ وہ یک دم بگڑ گئے۔ بولے یہ اشعر کو کیا ہوگیا ہے؟ پہلے تو کبھی اس نے زبان نہ کھولی تھی۔ والدہ نے سمجھایا کہ نوجوان لڑکا ہے، آپ اسے کچھ نہ کہیے گا میں خود مانا لوں گی۔ بات شاید سمجھانے کی حد سے آگے بڑھ چکی تھی۔ جب والدہ نے تنبیہ کی ، اشعر بھائی اکھڑ گئے ۔ کہنے لگے زندگی میں نے گزارنی ہے آپ لوگوں نے نہیں۔ جان لیجئے کہ اگر مجھ پر زبردستی اپنا فیصلہ تھوپنے کی کوشش کی گئی تو میں گھر سے چلا جاؤں گا۔ والدہ اس دھمکی سے ڈر گئیں۔ اشعران کا ایک ہی بیٹا تھا۔ تاہم میں نے امی کو تسلی دی اور بھائی کو بھی کہ وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جاتا ہے۔ اللہ سے دعا کیجیے کہ جو ہو اچھا ہو- اب ثریا نے ہمارے گھر آنا بند کر دیا تھا۔ شاید کہ بھائی نے اسے منع کر دیا تھا۔ ہم دونوں بہنوں نے اشعر بھائی سے کہا کہ آپ ہم کو ثریا کے گھر لے چلیں۔ ہم دیکھیں تو سہی کہ وہ کیسے لوگ ہیں۔ اشعر ہم کو ثریا کے گھر لے گئے۔ اس کی بہن اور والدہ بہت خوش ہو کر ملیں۔ ہماری خاطر مدارات کرنے لگیں۔ ان کو خیال ہوا کہ شاید ہم نے ثریا کو پسند کر لیا ہے اور اپنی بھائی بنانے کا ارادہ ہے۔ ہم کو بھی یہ اچھی لگی تھیں۔ ہم بہنوں نے امی کو منا لیا کہ فی الحال آپ اشعر بھائی کو تنہا نہ چھوڑیں بلکہ ان لوگوں کے گھر آنا جانا رکھیں۔ نجانے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھنے والا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا بیٹا آپ کے ہاتھ سے نکل جائے۔ امی نے بھی بیٹے کی ان لوگوں میں گہری دلچسپی کو سمجھ لیا۔ کوئی ماں اپنی اولاد کی خوشیوں کو ریزہ ریزہ ہوتے دیکھنا نہیں چاہتی، ایسے میں جب کہ اس کا بیٹا اکلوتا ہو۔ ابوکو منانا اب امی کا کام تھا۔ ہم تو اپنے بھائی کے ساتھ تھے ۔ سچ کہوں تو پہلی نظر میں ہی مجھے ثریا بھا گئی تھی۔ امی نے ایک دو بار ثریا اس کی والدہ اور بہن کوگھر بھی مدعو کیا۔ وہ شاید چاہتی ہوں کہ والد ان کو ایک نظر دیکھ، پرکھ لیں تو بات آگے کریں۔ لیکن والد صاحب حیدر چاچا کے گھر ہی بھائی کا رشتہ کرنا چاہتے تھے۔ وہ اس بات سے رنجیدہ ہو گئے کہ میری بیوی اور بچیاں بھی اپنے بھائی کی ہم نوا ہو گئی ہیں۔ ہم تو بھائی کی خاطر ایسا کر رہی تھیں کیونکہ مجھے معلوم تھا اب اشعر مانے والے نہیں۔ وہ ہر اتوار کو کھانا ثریا کے گھر کھاتے تھے۔ ہم کونہ بتاتے مگر میں نے حالات سے باخبر رہنے کے لئے ثریا کو اس قدر اعتماد میں لے لیا کہ وہ مجھے اکثر باتیں فون پر بتایا کرتی تھی۔

دو سال گزر چکے تھے اور اب ثریا کی بہن میرے بھائی سے اصرار کرتی تھی کہ اپنی والدہ سے کہو رشتہ لے کر آئیں۔ امی کب تک ثریا کو بٹھائے رکھیں گی ۔ جب بھی اب کوئی اچھا رشتہ آیا وہ مزید انتظار نہ کریں گی۔ یہ حقیقت تھی وہ اتنی حسین تھی کہ اچھے گھر کے نوجوان اس سے شادی پر آمادہ ہو سکتے تھے۔ ممکن تھا کہ کچھ ڈاکٹرلڑکوں کے رشتے بھی آئے ہوں۔ اب جب ان خواتین نے بھائی سے اصرار کیا انہوں نے امی سے کہا کہ آپ جلد از جلد ان کے گھر میرا رشتہ لینے جائیں کیونکہ میں برسر روزگار ہو چکا ہوں۔ آخر آپ دیر کیوں کر رہی ہیں جب کہ لڑکی بھی پسند کرلی ہے۔ امی نے ایک بار پھر والد صاحب سے بات کی وہ برہم ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ میں بھائی کو بھی چھوڑ دوں اور اپنا مسلک بھی چھوڑ دوں ۔ ان لوگوں کا عقیدہ ہم سے الگ ہے۔ میں کبھی اس رشتے پر رضامند نہیں ہوسکتا۔ والد کے غصے سے ہم سب ڈرتے تھے۔ امی بھی سہم کر رہ گئیں اور ہم بیٹیاں تو ان کے آگے دم نہ مار سکتی تھیں ۔ امی نے بیٹے کو صاف بتا دیا کہ اشعر تمہارے ابوان لوگوں کے ساتھ رشتہ جوڑنے کو ہرگز تیار نہیں ہیں۔ آگے کی تم خود سوچ لو۔ یہ بات اشعر نے مجبور ہو کر ثریا کی ماں کو بتا دی، رشتہ لینے میرے والدین نہیں آئیں گے۔ میں نے ان کو منانے کی کافی کوشش کی ہے اور ناکام رہا ہوں۔ ثریا کی ماں نے بھائی سے کہا۔ اشعر ہمارے سر پر کسی مرد کا سایہ نہیں ہے۔ ہم نے تمہاری شرافت اور محبت دیکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا ہے کہ تمہارے گھر والے شادی میں شامل ہوں یا نہ ہوں تم بے شک اپنے دوستوں کو لے آؤ۔ میں نکاح کر دوں گی لیکن رخصتی تبھی کروں گی جب تمہارے گھر والے ثریا کو اپنے ساتھ رکھنے پر راضی ہوں گے۔ اس طرح مجھے کم از کم یہ تو اطمینان ہو جائے گا کہ میری ایک بیٹی کارشتہ پکا ہے۔ تبھی دوسری کے لئے تگ و دو کروں گی ۔ سوچ اگر آج میں مرجاؤں پھر میرے بعد ان دونوں کا کون ہوگا۔ثریا کی ماں کی باتوں کا بھائی کے دل پر اثر ہوا۔ وہ اپنے دو دوستوں کے ساتھ ان کے گھر گئے اور ثریا کی ماں نے بیٹی کا نکاح کرا دیا۔ بھائی نے کہا کہ جب تک امی ابور راضی نہیں ہوتے اسے اپنے پاس رہنے دیجیے۔ میں اس کو اکیلے گھر میں کہاں اور کیسے رکھوں گا۔ اشعر بھائی نے ثریا کو اپنا لیا اوران عورتوں کا سہارا بن گئے لیکن ہم کو انہوں نے کانوں کان خبر نہ ہونے دی بلکہ شادی کے بعد بھی رات کو گھر آجاتے۔ انہوں نے والد صاحب کے ڈر سے اپنے معمولات میں تبدیلی نہ آنے دی۔ اشعر بھائی کو انہی دنوں کمپنی کی طرف سے سعودی عربیہ جانے کا ویزامل گیا وہ بہت خوش ہوئے کہ جا کر بیوی کو بھی بعد میں وہاں بلوالوں گا اور جدائی کی فصیل ختم ہو جائے گی۔

اب بھائی وہاں سے ثریا سے رابطہ رکھتے تھے اور باقاعدہ ڈرافٹ بھجواتے تھے ۔ ہر ماہ معقول رقم ثریا کے گھر والوں کو اشعر کی کمائی سے ملنے لگی ۔ رقم وہ ثریا کی والدہ کے نام بینک میں بھجواتے کہ یہی ان کی ہدایت تھی۔ وہاں جا کر اشعر بھائی کو اندازہ ہوا کہ یہاں بیوی کو بلوانا اور ساتھ رکھنا ایک نہایت دشوار امر ہے۔ تین سال بعد بھائی چھٹی پر وطن آئے ۔ جب ساس کے گھر گئے پتہ چلا ثریا گھر پر نہیں ہے۔ اس کی ماں نے بتایا کہ اس کی خالہ اسے لے گئی ہے اور وہ سیالکوٹ میں ہے کیونکہ یہاں اس کے بہت رشتے آتے ہیں اور وہ کسی کو بتا نہیں سکتیں ان کی بیٹی شادی شدہ ہے۔ صرف اور صرف اس خوف کی وجہ سے کہ اشعر کے والد کو علم نہ ہو جائے اور وہ یہاں آ کر کوئی ہنگامہ نہ کر دیں۔ اشعر کو یہ بات عجیب لگی۔ انہوں نے کہا اب تو میں آ گیا ہوں اب آپ میری بیوی کو بلوا لیں۔ میں خود اسے اپنے ساتھ اپنے گھر لے جاؤں گا، کوئی اسے قبول کرے نہ کرے میں اتنا کما چکا ہوں کہ الگ بھی رہ سکتا ہوں۔ اب میں کسی بات کی پروا نہ کروں گا۔ ثریا کی والدہ نے آخر ایک روز کہہ دیا کہ طلاق دے دو یا پھر سمجھ لو کہ ہماری بیٹی سے تمہاری شادی ہوئی ہی نہ تھی ۔ میری بیٹی کا بہت دولت مند گھرانے سے رشتہ آیا ہے، وہ خوب دھوم دھام سے شادی کریں گے اور ساری دنیا کے سامنے اسے عزت سے بیاہ کر لے جائیں گے۔ تم تین سال باہر رہے ہو، ویسے بھی وہ اب تمہاری پابند نہیں ہے، تم نے کونسا شادی کو رجسٹر کرایا تھا۔ نکاح نامے کا پرت تک اپنے پاس نہیں رکھا، گھر والوں کے ڈر سے۔ میں نے وہ سارے پرت پھاڑ دیئے ہیں تم دعوی بھی نہیں کر سکتے۔ تم ہی جھوٹے بنو گے کہ بھلا کوئی اتنے برس بھی بیوی کو چھپاتا ہے اور نکاح کو خفیہ رکھتا ہے۔ شادی تو وہ ہوتی ہے جس میں لڑکے والے بھی شریک ہوتے ہیں۔ ساری دنیا کو پتہ ہوتا ہے۔یہ سن کر بھائی اشعر بولے خالہ جی نکاح کوئی مذاق تو نہیں۔ میں کورٹ میں دعویٰ کروں گا۔ ہاں ہاں جاؤ شوق سے جاؤ۔ جگ ہنسائی کراؤ، وہ بزدل شخص جو بیوی کوگھر نہیں لے جاسکتا وہ کورٹ کیا جائے گا۔ بھائی نے مجھے بتایا کہ رمشاء میرے ساتھ اس چالاک اور مسکین بڑھیا نے ہاتھ کیا ہے اب بتاؤ میں کیا کروں ۔ میں نے کہا بھائی یہ والد کی طرف سے تم کو سبق ہے جلد تم پران لوگوں کی اصلیت کھل گئی ہے۔ میری مانو تواب ان کا پیچھا ہرگز مت کرو۔ اپنی عزت کومزید گھاٹے میں مت ڈالو۔ جیسے خاموشی سے نکاح کیا تھا ویسے ہی طلاق بھی دے دو۔ اگر تم اس بندھن کو شادی کہتے ہو۔ بہر حال جو تمہارے پاس نہیں رہنا چاہتی تم کیوں ان کو زبردستی اپنے ساتھ رکھنا چاہتے ہو۔ وہ کہنے لگا کہ ایک بار ثریا سے تو بات کر لوں وہ کیا کہتی ہے۔ صاف ظاہر ہے بیٹی بھی وہی ہے جو ماں ہے۔ اب بھی تمہارا رابطہ نمبر اس کے پاس ہے ۔ کہیں سے بھی فون پر رابطہ کرسکتی ہے۔ وہ ایک ملازمت پیشہ اور نرس ہے اتنی تو بے بس نہ ہوگی کہ تم کو ایک فون نہ کر سکے۔ اشعر بھائی پریشان تو بہت تھے لیکن میری بات ان کی سمجھ میں آ گئی۔ ثریا نے دوماہ کی چھٹی لی تھی۔ میں نے اسپتال جا کر اس کی ایک سہیلی سے پتہ کیا اور نمبر لے کر فون کیا تو اس نے مجھے پہچاننے سے انکار کر دیا، بولی کہ میں رمشاء یا کسی اشعر کو نہیں جانتی۔ آپ لوگوں کو اگر عزت پیاری ہے تو دوبارہ فون مت کیجیے گا۔ ہم کوثریا جیسی دھو کے باز پیاری نہ تھی۔ ہم کو تو اپنے والدین اور ان کی عزت پیاری تھی، لہذا ہم بہنوں کے سمجھانے سے اشعر نے دل پر صبر کی بھاری سل رکھ دی کہ محبت میں لاکھ ہر بات جائز سہی عزت کی نیلامی کا سودا جائز نہیں تھا۔ انہوں نے اپنے طور پر پھر بھی ثریا سے رابطہ کی کوشش ضرور کی تھی، جب سو فیصد یقین ہو گیا کہ یہ خانوادہ ہی درست نہیں ہے تو انہوں نے اپنا رستہ بدل لیا اور والدین کے کہنے پر چچا حیدر کی بیٹی سے شادی کر لی۔ بے شک ہماری بھابھی بہت خوبصورت نہیں ہے بلکہ قبول صورت ہے لیکن ایسی بے وفاء بے مروت بھی نہیں ہے جیسی کہ ثریا تھی ۔ خدا ایسی حسین لڑکیوں سے شریف خاندان کے نوجوانوں کو بچائے جو دولت ہی کو سب کچھ سمجھتی ہیں ۔

Post a Comment

0 Comments

'; (function() { var dsq = document.createElement('script'); dsq.type = 'text/javascript'; dsq.async = true; dsq.src = '//' + disqus_shortname + '.disqus.com/embed.js'; (document.getElementsByTagName('head')[0] || document.getElementsByTagName('body')[0]).appendChild(dsq); })();