ہمارے کزن کی شادی تھی، میں بہت خوش تھی۔ ہم کتنی مدت بعد ملتان سے جام پور جارہے تھے۔ اسی شادی میں میرے چچازاد بھائی احمر کی شرکت بھی متوقع تھی۔ ہم بھائی بہن اس لیے بھی خوش تھے کہ شادی میں اور کزنز سے بھی ملاقات ہوجائے گی، جن سے ملے عرصہ گزر گیا تھا۔ جام پورآ کر سب سے پہلے جس سے ملے، وہ احمر ہی تھا۔ بھیا کی تو باچھیں کھل گئیں وہ دونوں دوست تھے اوران کی آپس میں بہت بنتی تھی۔ جب ملتے، نہال ہوجاتے اور فوراً سیرو تفریح کا پروگرام بنالیتے تھے۔ شادی والے گھر میں تو رونقیں ہی ہوتی ہیں اور نوعمر لڑکے، لڑکیوں کے لیے یہ تقریبات کشش رکھتی ہیں۔ اس طرح کے موقعوں پر اکثر دل آباد اور آنکھیں شاد ہوجاتی ہیں ۔ احمر بھی پہلے ہی دن ایک لڑکی سے جا ٹکرایا۔ وہ غصے میں بولی۔ دیکھ کر نہیں چلتے، آنکھیں بند رکھتے ہو کیا؟ آنکھیں تو ابھی کھلی ہیں اور کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں۔ وہ غصے سے ہاتھ جھٹکتی آگے چل دی۔ اس کا دوست شجیع دیکھ رہا تھا۔ وہ قریب آگیا اور احمر کے کان میں کہنے لگا۔ فرصت نظارہ کم ہے اور یہاں صورتیں قابل دید ہیں بہت تب ہی احمر نے جواب دیا۔ صورتیں نہیں ، مگر ایک ہی صورت ہے، جانے کیا نام ہے اس کا ؟ کون ہے، کہاں رہتی ہے۔یہ صورت نہیں مورت لگتی ہے اور یہ مورت بھی تمہاری کزن ہوتی ہے۔ کیا نام ہے اس کا، احمر نے پوچھا۔ اس کا نام صاحبہ ہے اور انکل عابد کی بیٹی ہے، کیا وہی لاہور والے۔جی ہاں، وہی لاہور والے، جن کا غصہ مشہور ہے اور صاحبہ نے بھی تم کو غصے سے دیکھا تھا، سوچ لو اب اچھی طرح – صاحبہ نے اسے غصے سے دیکھا ضرور تھا لیکن یہ غصہ عارضی ثابت ہوا۔ وہ اب اس سوچ میں تھی کہ اس نڈر لڑکے کو دوبارہ دیکھے، جس نے کہا تھا کہ آنکھیں تو اب کھلی ہیں اور تمہیں دیکھ کر کھلی کی کھلی رہ گئی ہیں۔ وہ اس فقرے باز کو دوبارہ دیکھنا چاہتی تھی، کیا واقعی اس کی آنکھیں کھلی ہوئی ہیں ، کہیں بند تو نہیں ہوگئی ہیں۔ میرا یہ خیال ہے کہ جب کوئی کسی کے بارے سنجیدگی سے سوچے ،تو دوسرا بھی اس کے بارے سوچ رہا ہوتا ہے۔ تب ہی احمر کے ذہن میں بھی یہی خیال تھا کہ وہ برہم مزاج لڑکی اب کہاں ہوگی اور کیا کررہی ہوگی؟ وہ باہر گیا، پھر اندر آیا اور دوبارہ باہر چلا گیا۔ تب ہی اس نے دیکھا، وہ دروازے پر آئی ہے اور گھر سے باہر جھانک رہی ہے۔ احمر پر نظر پڑتے ہی وہ اپنی چھوٹی بہن کو بلانے لگی، جو گلی میں کھڑی تھی۔ احمر کو محسوس ہوا کہ وہ اپنی بہن کو نہیں بلکہ اس کو آواز دے کر بلا رہی ہے اور پوچھ رہی ہے کہ اس ہنگامہ بھرے گھر میں تم کہاں ہو؟ کس جگہ ہو اور کیا کررہے ہو؟ احمر نے جوں ہی صاحبہ کی جانب دیکھا تو اس نے مسکرا کر منہ دوسری طرف کرلیا اور گھر کے اندر چلی گئی۔ یہ ایک خاموش پیغام تھا۔ احمر نے شجیع بھائی سے کہا۔ آئو یار اندر چلتے ہیں، تب ہی وہ بولا نہیں بھائی، مجھے تو تم معاف ہی رکھو اس معاملے سے، میں دور ہی بھلا تمہاری آنکھیں کھلی ہیں، میری نہیں، اپنی کھلی آنکھوں سے تم خود دیکھو۔
احمر نے اس کی ایک نہ سنی اور دوست کو کھینچتا ہوا گھر کے اندر لے آیا۔ وہ سامنے نلکے پر چھوٹی بہن کے ہاتھ دھلوا رہی تھی۔ تب ہی با آواز بلند احمر نے دوست کو مخاطب کرکے کہا۔ یار شجیع یہ اچھی بات نہیں ہے، کبھی یہاں سے گزر جاتے ہو اور کبھی وہاں سے… کبھی دو باتیں ہم سے بھی کرلیا کرو۔ کیا ہم اتنے ہی برے ہیں صاحبہ خاموشی سے کمرے میں چلی گئی۔ احمر نے پوچھا۔ شجیع بتائو وہ تم کو راضی لگی ہے یا ناراض – ذرا سا انتظار کرلو۔ ابھی پتا چل جائے گا۔ ابھی یہ دونوں شادی والوں کا کچھ سامان رکھ رہے تھے ، دیکھا کہ صاحبہ اپنی امی کے ساتھ کمرے سے باہر آرہی تھی – شجیع کہنے لگا۔ یار پھنس گئے، وہ دیکھو، وہ اپنی ماں کو لے آئی ہے ۔ میں نے تجھے کہا تھا کہ کوئی ایسی بات نہ کرنا کہ جس سے یہاں رشتہ داروں گھر میں ہماری عزت خاک میں مل جائے۔ اب خیر نہیں۔ اس چھوکری نے جاکر اپنی ماں سے شکایت کردی ہے۔ جب آنٹی ان کے پاس آئیں تو شجیع بھائی کی بری حالت تھی، ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ وہ انکل عابد کے غصے کو جانتا تھا۔ آنٹی نے پوچھا۔ شجیع کہاں ہیں تمہارے ابو؟ ابھی وہ یہ پوچھ ہی رہی تھیں کہ احمر نے آگے بڑھ کر ان کو سلام کیا۔ وہ خوش دلی سے بولیں۔ جیتے رہو بیٹا۔ تب ہی ان کی جان میں جان آگئی۔ کس کے بیٹے ہو ، انہوں نے احمر سے پوچھا۔ یہ حفیظ انکل کے بیٹے ہیں۔ شجیع نے جلدی سے جواب دیا۔ ماشاء الله ! اتنے بڑے ہوگئے۔ وہ حیرت سے بولیں۔ ہم بھی پہلے ملتان میں رہتے تھے اور تمہارے گھر آتے جاتے تھے پھر تمہارے انکل کا ٹرانسفر ہوگیا تو ہم لاہور آگئے۔ اب ملتان آئیے گا آنٹی۔ احمر نے کہا کہ اب ڈھارس ہوگئی تھی ۔ ضرور آئیں گے، تم بھی ضرور آنا لاہور بلکہ امی کو بھی لانا ۔ احمر خوش ہوا۔ وہ جس کو شکایت سمجھ رہا تھا، وہ بات نہ تھی اور آنٹی سے بھی ملاقات ہوگئی تھی۔ چلو اچھا ہوا۔ اس نے سوچا۔ واقفیت نکل آئی ہے، اب میں امی ابو کو ان کے گھر بھیج سکوں گا، صاحبہ کو حاصل کرنے کا خواب اسے پورا ہوتا دکھائی دینے لگا۔ اگلی صبح ناشتہ مہمانوں تک پہنچانا، احمر اور شجیع کے ذمے تھا ۔ یہ سب کو ناشتہ دے رہے تھے، تب ہی احمر کی ماموں زاد عائشہ بولی۔ ان کو جانتے ہو؟ نہیں۔ اچھا ادھر آئو، میں تعارف کرادوں ، یہ ہماری کزن صاحبہ ہیں، لاہور سے آئی ہیں ۔ انکل عابد کی بیٹی ہیں۔ اس نے تعارف کرایا۔ عائشہ دلہا کی بہن تھی۔ یہ کہاں رہتی ہیں؟ احمر نے شرارت سے انجان بن کر پوچھا۔ اپنے گھر میں رہتی ہوں۔ صاحبہ نے برجستہ جواب دیا۔ سب ہی لڑکیاں جو ناشتہ کی میز پر موجود تھیں ، ہنس پڑیں۔ احمر بھی کھسیانی ہنسی ہنسنے لگا۔ تب ہی آنٹی آگئیں۔ بولیں احمر بیٹا ! یہ لڑکیاں نہر پر جانا چاہتی ہیں۔ تم اور شجیع بڑی گاڑی چلانا جانتے ہو۔ ان کو لے جائو۔ بڑی جیپ انکل نے دی اور یہ دونوں رشتہ دار لڑکیوں کے ٹولے کو لے کر نہر کو روانہ ہوگئے۔ جب نہر پر پہنچے سب ادھر ادھر بھاگے مگر صاحبہ نہر پر رک گئی۔ احمر اس کے پاس پہنچا تو وہ نپے تلے قدموں سے چلنے لگی۔ کوئی بات کہنی ہے تو کہہ دیجئے مشکل ہے، بات زبان سے ادا نہیں ہو پا رہی۔ایسی کون سی بات ہے جو بات کرنے میں مشکل ہورہی ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد آپ کو شریک حیات بنائوں۔ ابھی احمر نے اسی قدر کہا تھا کہ شجیع نے پکارا چلو آئو اور بھاگتے ہوئے نہر پر آگئے۔ سامنے آموں کا باغ تھا۔ سب ہی باغ میں چلے گئے مگر احمر نے صاحبہ کو روک لیا اور پوچھا۔ کیا جواب ہے تمہارا؟ تم میرے جواب کا انتظار کرنا۔ اس نے جواب دیا اور باغ میں چلی گئی۔ مہندی والی رات سب لڑکیاں جھومر اور لڈی ڈال رہی تھیں لیکن صاحبہ ایک جانب کھڑی تھی۔ وہ کس سوچ میں گم تھی، تب ہی احمر اس کے پیچھے جا کھڑا ہوا اور منہ اس کے کان کے قریب کرکے بولا۔ مجھے جواب چاہیے۔
احمر کی آواز پر اس نے مڑ کر دیکھا اور گھبرا گئی۔ خدا کے لیے آپ یہاں سے چلے جائیے۔ کوئی دیکھ لے گا تو کیا کہے گا۔ احمر نہ ٹلا تو وہ مجبور ہوکر بولی اچها ،پلیز آپ اندر کمرے میں بیٹھیے، میں ابھی آتی ہوں۔ تھوڑی دیر بعد موقع ملتے ہی وہ آ گئی اور کہا۔ میں نے آپ کے سوال پر سوچا ہے۔ جواب یہ ہے کہ میرا اور آپ کا ساتھ ٹھیک نہیں رہے گا۔ آپ ملتان میں ہوں گے اور میں لاہور میں۔ ہم آسانی سے ایک دوسرے کے گھر آ جا بھی نہیں سکتے فاصلوں سے ڈر گئی ہیں ۔ آپ مجھے دوسروں سے مختلف پائیں گی۔ ہم کو جلد لاہور آنا ہے کسی کام کے سلسلے میں۔ تمہارے امی ابو مجھے جانتے ہیں۔ میں تمہارے گھر آکر رہوں گا۔ اس کے بعد میں بہت جلد اپنے والدین کو تمہارے گھر بھیجوں گا۔ صاحبہ نے آنکھیں جھکا کر اقرار کرلیا، تب ہی وہاں شجیع بھائی پہنچ گئے۔یہ لیلی مجنوں کی جوڑی یہاں بیٹھی ہے اور میں نے سارا گھر چھان مارا ہے۔ چلو باہر ، دلہا صاحب کو مہندی لگاتے ہیں ۔ مہندی والی رات خواب ہنگامہ رہا۔ اگلی صبح شادی تھی احمر اور شجیع دونوں شادی کے کاموں میں مصروف تھے۔ جب بھی وہ گھر کے اندر آتے ،صاحبہ منتظر نظر آتی۔ احمر کے دل میں گلاب کھل گئے۔ اسی دن احمر نے ایک رشتہ دار لڑکی سے باتیں کیں، تب ہی اس نے نوٹ کیا کہ اس کو لڑکی سے محو گفتگو دیکھ کر صاحبہ کا چہرہ مرجھا گیا تھا۔ اس سے برداشت نہ ہوا تو وہ خود ہی قریب آ گئی۔ احمر نے کہا۔ آپ ذرا دو منٹ کے لیے میرے ساتھ آئیے۔ وہ اپنی رشتہ دار لڑکی سے معذرت کرتا ہوا اس کی طرف آگیا۔ ایک جانب جاکر صاحبہ بولی۔ یہ سب کیا ہے احمر ! احمر اس کی بے چینی سمجھ گیا اور ہنستا ہوا باہر چلا گیا۔ شادی کی تقریب اختتام پذیر ہوگئی ہنگامہ تمام ہوا۔ پهروه دن بھی آگیا جب صاحبہ اپنے گھر والوں کے ساتھ لاہور جارہی تھی۔ اس وقت احمر بہت اداس تھا۔ وہ چلی گئی ، مگر احمر کو افسردہ کرگئی۔ اپنی یاد اس کے پاس چھوڑ گئی۔ اس نے لاہور جا کر خط لکھا، جس میں تحریر تھا کہ میں آپ کا انتظار کروں گی۔ اگر نہ آئے تو کچھ کر بیٹھوں گی۔ پندرہ دن بعد وہ لاہور چلا گیا۔ دروازے پر صاحبہ ملی، بہت خوش ہوئی اور احمر کو ماں کے پاس لے گئی۔ آنٹی نے اسے پیار کیا، والدین کی خیریت پوچھی۔ پھر اس کی خوب خاطر تواضع کی شام کو صاحبہ کو تنہائی میں بات کرنے کا موقع مل گیا تو اس نے بتایا کہ چند روز سے کچھ مہمان آرہے ہیں۔ یہ لوگ میرے رشتے کے لیے چکر لگا رہے ہیں ، احمر تمہارا کیا ارادہ ہے؟ ارادہ یہ ہے کہ گھر جاتے ہی امی ابو کو تمہارے گھر بھیج دوں گا ۔ جلدی کرنا، دیر نہ ہوجائے۔ ایک بات تو بتائو ! کیا رشتہ طے کرتے وقت تمہارے امی اور ابو تم سے رائے مانگیں گے۔ ہاں، انہوں نے میری مرضی پوچھنی ہے۔ اسی لیے کہہ رہی ہوں، جلدی کرنا، دیر نہ کردینا، ورنہ پھر وہ اپنی مرضی کریں گے ۔ احمر، صاحبہ کو تسلی دے کر ملتان لوٹ آیا لیکن یہاں آتے ہی اس کو ایک بری خبر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے چھوٹے بھائی شریف کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ یہ سن کر اس کے ہوش اڑ گئے۔ فوراً اسپتال پہنچا۔ وہاں چھوٹے بھائی کی حالت غیر تھی – اور سب گھر والے بیٹھے رو رو رہے تھے، وہ بھی اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکا اور رونے لگا۔ ڈاکٹر نے کہہ دیا تھا کہ دعا کریں، معجزہ ہوسکتا ہے۔
احمر اب دن رات اسپتال میں رہتا تھا۔ شریف کو ایکسیڈنٹ کے بعد سے ابھی تک ہوش نہ آیا تھا۔ آخر معجزہ ہوگیا، دعائیں رنگ لے آئیں۔ اس کے بھائی کو ہوش آگیا۔ زندگی کی امید جاگ پڑی لیکن اب رات دن احمر کواسپتال میں رہنا پڑتا تھا۔ چھوٹا بھائی اس کو بہت پیارا تھا، اس پریشانی کے عالم میں وہ اپنی امی کو صاحبہ کے گھر جانے کے لیے بھی نہیں کہہ سکتا تها. ڈھائی ماہ کے بعد شریف کو صحت یابی نصیب ہوئی اور اسپتال سے چھٹی مل گئی۔ وہ گھر آ گیا۔ اب اس کی حالت قدرے بہتر تھی۔ اب ماں کو بھی سکون ملا۔ اس نے احمر کو دو لفافے دیے اور ایک کارڈ دکھایا کہ بیٹے یہ کارڈ تمہارے عابد انکل نے لاہور سے بھیجا ہے اور خط کسی دوست کے ہیں ۔ یہ خط مجھے تم کو دینا یاد ہی نہ رہے۔ اس نے کارڈ کھول کر دیکھا، یہ صاحبہ کی شادی کا دعوت نامہ تھا۔ اوه خدا! بے اختیار اس کے منہ سے نکل گیا۔ یہ کیا ہوگیا؟ ابھی ایک دکھ سے فارغ ہوئے تو دوسرے دکھ نے آ لیا۔ احمر نے دونوں لفافے چاک کیے، یہ صاحبہ کے خطوط تھے۔ ایک میں لکھا تھا جلدی کرو، کیا وعده نبھانا بھول گئے ہو؟ وہ لوگ چکر لگا رہے ہیں۔ امی ابو نے ان کو جواب دینا ہے اور وہ میرے جواب کے منتظر ہیں جبکہ میں تمہاری منتظر ہوں۔ سچ بتائو ، کہیں تم نے مجھ سے مذاق تو نہیں کیا تھا؟ دوسرے خط کی تحریر پر آنسو گرے ہوئے تھے۔ تحریر کہیں کہیں مٹی ہوئی تھی۔ اس نے احمر کو بے وفا کہا تھا کہ جھوٹا وعدہ کیوں کیا ، اگر وعدہ وفا نہیں کرنا تھا ۔ آج میرے رشتے کی بات طے ہوگئی ہے۔ امی ابو نے میری مرضی پوچھی تھی، میں نے ہاں کردی ہے۔ اگر تم بے وفا ہو تو پھر بھلا میں اپنے والدین کو کیوں ناراض کروں؟ آئندہ مجھ سے کسی قسم کا رابطہ نہ رکھنا۔ یوں صاحبہ پرائی ہوگئی۔ وہ کیا جانے کہ احمر کی کیا مجبوری تھی۔ ہفتے بھر وہ بستر پر پڑا رہا، پھر اچانک اس کو کیا سوجھی کہ لاہور جانے والی کوچ میں بیٹھ گیا۔ آنٹی اس طرح تپاک سے ملیں مگر اظہار ناراضی کیا کہ تم اور تمہارے امی ابو میری صاحبہ کی شادی میں کیوں نہیں آئے ؟ جبکہ میں نے کارڈ بھی بھیجا تھا۔ تب ہی اس نے اپنے چھوٹے بھائی کے ایکسیڈنٹ کا بتایا۔ باتوں باتوں میں آنٹی نے بتایا کہ صاحبہ ملتان بیاہ کرگئی ہے۔ ملتان میں کون سی جگہ آنٹی۔ تب ہی سادہ لوح آنٹی نے بیٹی کے گھر کا پتا بھی اسے بتا دیا۔ احمر وہاں پہنچ گیا۔ ملازم نے احمر کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا۔ صاحبہ آگئی، بہت افسردہ تھی۔ کہنے لگی، احمر میں نے تم سے کہا تھا ، مجھ سے رابطہ رکھنا، پھر تم نے کیوں رابطہ نہ رکھا اور اب جبکہ رابطہ نہیں رکھنا ہے تو کیوں میرے گھر آگئے ہو؟ یہ بتانے کے لیے کہ میں بے وفا نہیں ہوں اور یہ پوچھنے کہ تم نے میرے جواب کا انتظار نہ کیا اور اپنا فیصلہ والدین کو دینے میں جلدی کی۔ ان دنوں جب میں گھر واپس گیا تو چھوٹے بھائی کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا اور وہ موت و زیست کی کشمکش میں تھا۔ میں ایک منٹ کے لیے بھی اس کو نہیں چھوڑ سکتا تھا۔ اگر یقین نہیں آتا تو گھر چل کر دیکھ لو اس کی ایک ٹانگ کٹی ہوئی ہے۔ احمر کے منہ سے یہ باتیں سن کر وہ رونے لگی، اس نے کہا ۔ احمر واقعی تم نہیں، میں بے وفا ہوں۔ میں نے فیصلہ کرنے میں بہت جلدی کی اور تم نے تو ذرا سے انتظار کے بعد بے وفا سمجھ لیا۔ مجھے معاف کردو۔ اب رونے سے کیا فائده، کاش تم کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے سچائی جان لیتیں۔ یہ کہہ کر وہ چلا گیا ۔ وہ اب بہت بھی افسردہ تھا لیکن دل سے ایک بوجھ ہٹ گیا تھا۔ آج بھی احمر جب بھائی سے ملنے آتا ہے۔وہ یہی کہتا ہے کہ جلد بازی نہیں کرنا چاہیے اور فیصلہ کرنے سے پہلے حالات کو جاننے کی ضرور کوشش کرنا چاہیے، ورنہ میری طرح دکھ اٹھائو گے جو ہونا تھا ہوگیا۔ میرے بھائی، شجیع کی بھی شادی ہوگئی۔ اتفاق یہ کہ اس کی شادی صاحبہ کی کزن سے ہوئی ہے، جس کا صاحبہ کے گھر آنا جانا ہے۔ بھابھی کا کہنا ہے کہ جب سے صاحبہ کی شادی ہوئی ہے اس کو کسی نے دلہنوں والے ہار سنگھار میں نہیں دیکھا وہ اتنی سادہ رہتی ہے جیسے اس کی شادی ہوئی ہی نہ ہو۔ جانے کون سا دکھ اس کے اندر ہے، جس کے بارے میں وہ کسی کو بتاتی بھی نہیں ہے اور میں سوچتی ہوں کہ احمر سے اس کی چند دن کی محبت تھی، پھر یہ پل بھر کی محبت عمر بھر کا روگ کیسے بن گئی؟
0 Comments