أن دنوں میرے شوہر کراچی میں مجسٹریٹ لگے ہوئےھے۔ ان کے پاس ایک کیس آیا، جس کا انہوں نے فیصلہ سنانا تھا۔ یہ پانچ برس سے بیاہتا ایک جوڑا تھا۔ اس جوڑے کی عجب کہانی تھی۔ صبیحہ دواؤں کی ایک کمپنی میں ملازمت کرتی تھی کیونکہ اس کے مالی حالات اچھے نہ تھے۔ اسی کمپنی میں ناصر بھی قدرے بہتر عہدے پر فائز تھا۔ اتفاق سے اس کمپنی کو کسی سبب اپنے کچھ ملازمین کو فارغ کرنا پڑا۔ اس چھانٹی کی زد میں صبیحہ بھی آگئی اور اس کا نام سبکدوش ہونے والے ملازمین کی فہرست میں آگیا۔ جب اس کو پتا چلا کہ اُسے ملازمت سے سبکدوش کر دیا گیا ہے تو وہ بے حد رنجیده و دلگرفتہ ہوئی۔ سفارش کے لئے ناصر کے پاس گئی اور درخواست کی کہ اُسے ملازمت سے نہ نکالا جائے کیونکہ ان کے معاشی حالات اچھے نہیں ہیں۔ وہ درخواست کرتے ہوئے زارو قطار رونے لگی۔ ناصراسے روتا دیکھ کر پریشان ہوگیا ۔ اُسے اس لڑکی پر ترس آیا ۔ اس نے کہاکہ میں وعدہ نہیں کرسکتا کہ تم کو کمپنی کے اس فیصلہ سے بچا سکوں،البتہ منیجر سے ضرور کہوں گا لیکن یہ منیجر کے بس کی بات بھی نہیں ،کیونکہ یہ فیصلہ کمپنی کے بورڈ آف ڈائریکٹر نے کیا ہے بہرحال، تم غم زدہ نہ ہو، میں تمہارے لئے کوئی دوسری ملازمت تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔
کہتے ہیں کہ جب ایک دربند ہوتا ہے تو رازق اپنے بندے کےلئے کوئی اور دروازه کهول دیتا ہے۔ اس روز ہمدردی میں ناصر نے صبیحہ سے کہاکہ اگر تم چاہو تو میں اپنی کار میں تم کو گھر تک چھوڑ دوں۔ وہ اتنی غم سے نڈھال تھی کہ بس میں سفر کرنا مشکل لگ رہا تھا کیونکہ آنکھوں سے باربار آنسو گررہے تھے۔ ناصر نے صبیحہ کو گھر ڈراپ کردیا، پھر تمام رات اسی بارے سوچتا رہا کہ وہ بچاری نجانے کتنی مجبور ہے جو ملازمت جانے سے اس قدر آپ سیٹ ہو گئی ہے۔ مجھے ضرور اس کے لئے کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔اس نے اپنے طور پر کوشش کی مگر کامیابی نہ ملی۔ صبیحہ کے لئے کوئی اچھی ملازمت تلاش کرنا مشکل تھا کیونکہ وہ صرف میٹرک پاس تھی۔ وہ تقریباً روز فون کرکے ناصر سے پوچھتی کہ کیا کوئی ملازمت میرے لئے ڈھونڈ لی ہے؟ اس سوال کا اُس کے پاس جواب نہ تھا۔ بالآخر ایک روز تسلی دینے اُس کے گھر گیا تو دیکھا کہ اس کی والدہ بیمار پڑی ہیں اور گھر میں مالی پریشانی ہے۔ ان لوگوں کے پاس علاج کے بھی پیسے نہیں تھے۔ ناصر ان کے علاج معالجہ کا انتظام کیا، لیکن خدا نے اس عورت کے نصیب میں شفا نہیں لکھی تھی۔ لہذا وہ صحت پانے کی بجائے راہی ملک عدم ہوگئی۔ اب صبیحہ تنہا رہ گئی تھی۔ اس کی ایک بڑی بہن شادی شدہ ،اپنے گھر میں رہتی تھی اور یہ ماں کے سہارے زندگی بسر کر رہی تھی۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے ناصر کی ہمدردی محبت میں بدل گئی۔ صبیحہ تھی بھی خوبصورت، پس اس نے سوچا کہ مجھے شادی تو کرنا ہی ہے۔ کیوں نہ صبیحہ سے کرلوں۔ تبھی اس نے صبیحہ کو اپنانے کا فیصلہ کرلیا۔ اس نے اپنے بڑے بھائی کو لکھا کہ جلد از جلد میرے حصے کی جائیداد میرے حوالے کی جائے تاکہ ہاتھ میں کچھ رقم تو آئے تومیں سہولت سے گھر بسا سکوں۔ ناصر کے بڑے بھائی ان دنوں کسی جنگی معرکے میں مصروف تھے۔ انہوں نے جواب دیا۔ چند دن صبر کر لو میں واپس آتے ہی تمہارے حصے کی وراثت حوالے کردوں گا۔ تب تم اطمینان سے شادی کر لینا لیکن ناصر اس پر راضی نہ ہوا۔ وہ جلد از جلد صبیحہ کو اپنی دلہن بنانا چاہتا تھا۔ اس نے بھائی کو مجبور کیا تو بھائی نے اپنے بینک میں پڑی کل جمع پونجی اس کے کھاتے میں ٹرانسفر کردی اور کہاکہ جب ملیں گے حساب کرلیں گے۔ ناصر نے اس رقم سے چھوٹا سا بنگلہ اور باقی رقم سے بانڈز خرید لئے کہ شاید کچھ نہ کچھ انعام تو نکلے گا۔ بنگلہ اس نے صبیحہ کے نام خریدا تھا اور انعامی بانڈز بھی بیوی کے حوالے کر دیئے تھے۔ اپنی نئی نویلی دلہن کے لئے اس نے گھر بھی بہت خوبصورتی سے آراستہ کیا اور ضرورت کی ہرشے خرید کر دی۔ اب اس کو کسی چیز کی آرزو نہ تھی۔ دونوں خوش و خرم زندگی بسر کر رہے تھے۔ گھر میں سکون تها، محبت تھی ۔ وہ بہت خوش تھا۔ صبیحہ بھی بظاہر خوش نظر آتی تھی۔ جلد الله تعالیٰ نے اُس کی گود ہری کردی۔ پہلے بیٹا ہوا پھر بیٹی ہو گئی۔ اولاد کی خوشی میں دونوں بہت مسرور تھے۔ ان کی شادی کو پانچواں سال تھا کہ یہ عجیب واقعہ ہوا۔
ایک منحوس دوپہر کو اتفاق سے وہ آفس سے جلد گھر آگیا۔ ایسا کبھی بھی نہ ہوا تھا کہ وہ وقت سے پہلے گھر آجائے مگر اس دن اس کی طبیعت اس قدر افسرده تهی کہ دفتر میں بیٹھا نہ گیا ، لہذا وہ اپنی چہیتی بیوی کو فون پر اطلاع کئے بغیر گھر کے لئے چل دیا۔ گھر پہنچا تو وہاں بالکل سناٹا تھا۔ صبیحہ گھر میں کہیں نظر نہ آئی۔ تبھی وہ بیڈ روم میں گیا ۔دروازہ بھڑا ہوا تھا۔ اس نے کھڑکی سے جھانکا اور ایسا منظر دیکھا جس کو دیکھنے کی اُس تاب نہیں تھی۔ اُس کا کرایے دار اور بیوی دونوں کمرے میں موجود تھے اور ان کی قربت شرافت کے دائرے کے اندر نہ تھی۔ اسے تو اپنی آنکھوں پر یقین نہ آیا۔ سارا جہاں اندھیرے میں ڈوبا ہوا دکھائی دیا۔ تبھی اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کر گزرتا، اس کا کرایہ دار چھلانگ لگا کر کمرے سے صحن میں پہنچا اور دوڑتا ہوا گھر سے باہر نکل گیا۔ اُسی وقت صبیحہ اس کے پائوں میں گر گئی اور رو رو کر معافیاں مانگنے لگی، بچوں کا واسطہ دینے لگی۔ صبیحہ کی آہ و زاری پر کچھ دیر کے لئے تو اس کے اندر کا بھونچال ساکت ہو گیا اور وہ بے حس سا پلنگ پر بیٹھ گیا۔ کافی دیر وہ سر پکڑے بیٹھا رہا۔ اس نے بیوی سے کوئی بات نہ کی بلکہ اپنے معصوم بچوں پر نظریں گاڑھے وہ دیر تک ان کے بارے سوچتا رہا کہ اس کا کوئی بھی مشتعل عمل بچوں کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے۔ گرمیوں کی دوپہر کا وقت تھا دونوں بچے اپنے چہرے پر معصومیت لئے سو رہے تھے۔ انہیں خبر نہ تھی کہ ان کے ماں باپ کی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب آچکا ہے۔ وہ سو رہے تھے اور ناصر مسلسل ان کے چہروں کو گھورے جا رہا تھا ۔ یکایک اس کے دماغ میں یہ خیال ایک کوڑے کی مانند برسنے لگا کہ نجانے یہ بچے بھی اس کے اپنے ہیں یا نہیں؟ ان کی صورتیں اب اس کو خود سے ملتی جلتی نظر نہیں آرہی تھیں۔ یہ صریحاً واہمہ ہو سکتا تھا لیکن اب یہ واہمہ بھوت بن کر اس کے ذہن سے چمٹ گیا تھا۔ اس کے بعد جو ہونا چاہئے تھا وہی ہوا، یعنی دونوں میں روز جھگڑا رہنےلگا- بات یہ تھی کہ آنکھوں دیکھی مکھی نگلنا اس کے بس کی بات نہ تھی اور بیوی یہ چاہتی تھی کہ اس کا چاہنے والا شوہر اس واقعے کو ایک بھیانک خواب سمجھ کر بھلا دے اور اس سے پہلے جیسا محبت بھرا سلوک کرنے لگے جو اس کا وطیرہ تھا۔ نجانے اس روز کسی بات پر جھگڑا شروع ہوا لیکن جھگڑے کی اصل جڑ وہی تھی کہ صبیحہ اپنے پیارے شوہر سے بے وفائی کی مرتکب ہوئی تھی۔ ناصر کو کسی نے بہکایا نہ تھا اور نہ کسی نے اس کی شکایت کی تھی بلکہ سب کچھ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا ۔ یہ تکلیف دہ نظارہ اس کی آنکھوں میں یوں ہر روز جلتا تھا جیسے تنور میں خشک لکڑیاں جلتی ہیں۔ دونوں اپنے دو منزلہ بنگلے کی چھت پر بیٹھے تھے۔ بچے پاس ہی کھیل رہے تھے۔ جھگڑے کی وجہ کوئی دوسری تھی لیکن موضوع گفتگو پهر وہی کرایے دار بن گیا جوان کے بنگلے کے گرائونڈ فلور پر چار برس سے رہتا چلا آرہا تھا اور اب روپوش ہو گیا تھا۔ بات بڑھی، دونوں نے اونچی آواز میں بولنا شروع کردیا، پھر نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی۔ بقول ایک پڑوسی ، اُس کو یکلخت ایک معصوم چیخ سنائی دی تبهی تین برس کا ننھا بچہ بنگلے کی چھت سے نیچے آرہا۔ اس نے چند گھنٹے موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا رہنے کے بعد دم توڑ دیا۔
میرے میاں ان دنوں بی کراچی میں مجسٹریٹ لگے جب یہ صبیحہ نامی عورت اپنے شوہر کے خلاف پرچہ درج کرانے کے بعد ان کے روبرو پیش ہوئی تھی۔ پرچے میں درج کیا گیا تھا کہ شوہر کے ساتھ تنازعے کے دوران اشتعال میں ناصر نے اپنے تین سال کے بچے کو اٹھا کر بنگلے کی چھت کے نیچے پھینک دیا تھا ۔ اپنے معصوم بچے کا قاتل صبیحہ نے اپنے شوہر کو ٹھہرایا تھا کیونکہ اس کا یہ شک تھا بچے اس کے نہیں ہیں، جبکہ ناصر کا کہنا یہ تھا کہ بچہ اس نے نہیں پھینکا، وہ خود بخود گر گیا تھا۔ بہرحال ناصر کے خلاف اس کے اپنے بچے کے قتل کا مقدمہ درج ہو گیا تھا۔ تین سال تک وہ جیل میں رہا ، پیشیاں ہوتی رہیں بالآخر عدم ثبوت کی بنا پر عدالت سے بری کر دیا گیا۔ بری ہونے کے بعد وہ گھر نہیں گیا۔ اس نے بیوی کو طلاق بھی نہیں دی۔ عرصہ تک ادهر ادهر مارا مارا پھرتا رہا۔ بیوی ابھی تک اس کے خریدے ہوئے بنگلے میں بچی کے ساتھ رہ رہی تھی۔ آخر دوستوں نے سمجھایا کہ اگر بیوی کو طلاق نہیں دیتے تو بہتر ہے صلح کی کوئی صورت نکالو تاکہ تم بھی در بدر نہ پھرو اور صبیحہ بھی تمہاری منکوحہ ہوتے ہوئے اپنی من مانی نہ کرسکے۔ ناصر اپنی بیٹی کے لئے اُداس تھا۔ اُسے بیٹی بنا ایک پل چین نہیں تھا۔ جونہی وہ گھر گیا، بچی ابو ابو کہتی اس کی ٹانگوں سے لپٹ گئی۔ صبیحہ بھی خوب پھوٹ پھوٹ کر روئی، وہ خود بھی روتا رہا۔ اس کے بعد یہ دونوں میاں بیوی بیٹی کی خاطر پھر سے ساتھ رہنے لگے۔ دو ماہ بھی چین سے نہ گزرے ہوں گے کہ ماضی کی بلاجاگ اٹھی۔ جس نے ناصر کی نیندیں اُچاٹ کر ڈالیں۔ صبیحہ بھی چوکنی تھی۔ جانتی تھی اس کے شوہر نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، وہ بھولا نہیں جا سکتا۔ کسی بھی دن کچھ نہ کچھ ہو کر رہے گا۔
ناصرکی عادت تھی کہ رات کو اسے پیاس لگتی تھی۔ وہ آدھی رات کو اٹھ کر پانی ضرور پیتا تھا۔ اس کی بیوی ہمیشہ جگ میں پانی بھر کر اس کے بستر کے قریب ایک تپائی پر رکھ دیتی تھی۔ یہ معمول کی بات تھی تاکہ ناصر کو پیاس لگے تو وہ ہاتھ بڑھا کر پانی پی لے اور اسے کچن میں نہ جانا پڑے۔ اس رات، دس بجے صبیحہ نے شوہر سے کہا مجھے پیاس لگی ہے، آپ کی طرف پانی رکھا ہے، ذرا مجھے دینا۔ اس نے تپائی پر دھرا جگ اٹھایا اور گلاس میں پانی بھر کر بیوی کو دیا۔ وہ لیٹی ہوئی تھی پانی پینے کو اٹھ کر بیٹھ گئی اس نے گلاس لبوں سے لگایا ہی تھا کہ اس کی چیخ نکل گئی۔ پانی کی جگہ کوئی ایسا سیال گلاس میں تھا کہ اس کے ہونٹوں کو چھوتے ہی لب جل اٹھے۔ ناصر نے پوچھا۔ کیا ہوا ؟ وہ بمشکل اتنا بول پائی کہ بتی جلائو۔ تم نے کیا دے دیا ہے۔ ناصر نے بتی روش کردی۔ گلاس صبیحہ نے پھینک دیا تھا اور تکلیف سے بلبلا تے ہوئے کہہ رہی تھی۔ یہ تم نے کیا ظلم کیا۔ پانی کی جگہ تیزاب دے دیا کیا؟ ناصر تم کتنے سنگدل ہو ۔ کیا مجھے مارنا چاہتے ہو؟ وہ بری طرح رو رہی تھی میں نے تمہیں تیزاب دیا ہے؟ پاگل ہو گئی ہو کیا مکار عورت، پانی تو تم نے ہی بھر کر یہاں رکھا تھا ۔ اب اس میں کیا تھا؟ مجهے کیا معلوم۔ یہ کہہ کر اس نے جگ اٹھا کر دیکھا۔ دوسرا گلاس اٹھا لایا ۔ اس سے پانی انڈیل کر دیکھا مگر اس میں تو پانی ہی تھا۔ لیکن پہلے والے گلاس میں پہلے سے کچھ سیال بھرا ہوا رکھا تھا اور اس نے وہ اٹھا کر بیوی کو دے دیا تھا۔ شاید اسی میں پانی کے علاوہ کوئی سیال تھا تبھی تو اسے ہونٹوں سے چھوتے ہی صبیحہ شدت تکلیف کا اظہار کر رہی تھی۔
تم نے خود گلاس میں پہلے سے تیزاب ڈال کر رکھ دیا تھا تاکہ جب میں رات کو اسے اٹھا کر پیوں تو میری موت واقع ہو جائے اور تم آزاد ہوکراپنی من مانی کرو اور کسی اور کے ساتھ مرضی کی زندگی بسر کر سکو۔ یہ غلط ہے وہ بول نہ پا رہی تھی پھر بھی بولنے پر مجبور ہوئی۔ یہ تم ہی نے کیا ہو گا۔ گلاس میں تیزاب ڈال کر رکھ دیا ہوگا۔ میں نے تو خالی گلاس جگ کے ساتھ رکھا گیا۔ اگر میں تیزاب بھر کر رکھتی تو تم سے پانی کیوں مانگتی؟ اب مجھے اسپتال تو لے چلو۔ مارے تکلیف کے مری جا رہی ہوں۔ تم مجھ سے کوئی بھیانک انتقام لینے پر تلے ہوئے۔ وہ کہتی تھی کہ تم کو مجھ پر شک تھا کہ یہ بچے تمہارے نہیں ہیں۔ تب ہی معصوم بیٹے کو بھی اٹھا کر نیچے پھینک دیا تھا۔ ناصر غصے میں دیوانہ ہو گیا، بولا۔ بیٹے کو میں نے نہیں پھینکا، ہمارے جھگڑے کے شور کی وجہ سے وہ ڈر کر بھاگا تھا اور منڈیر سے نیچے گر گیا تھا۔ ہرگز نہیں۔ صبیحہ چلائی ۔ تم کو میں نے خود اس کو اٹھا کرنیچے پھینکتے ہوئے دیکھا تھا۔ ایسے ہی جیسے آج تم مجھ پر تیزاب پھینکنے والے تھے۔ ناصر یہ بات سن کر آپے سے باہر ہو گیا۔ کہا کہ میں آج تک گھر میں تیزاب لایا ہی نہیں۔ یہ تم ہی ہو، جس نے تیزاب کا بندوبست کیا ہے ۔ تبھی ناصر نے گھر کی تلاشی لی اور اُسے اسٹور میں ایک بوتل ملی، جس میں تیزاب موجود تھا۔ اب وہ بوتل دونوں کے درمیان وجہ تنازعہ بنی۔ بیوی کہتی تھی کہ یہ تم گھر لائے ہو، مجھ پر پھینکنے کے لئے اور شوہر کا کہنا تھا کہ تم اسے مجھے پلانا چاہتی تھیں۔ تم ہی نے اپنے دیرینہ آشنا سے منگوائی ہے۔ اور اگر تم کہتی ہو کہ میں لایا ہوں تو پھر یونہی سہی ۔ یہ کہہ کر اس نے تيزاب صبیحہ پر گرادیا۔ بوتل میں تیزاب کم تھا لہذا وہ زیادہ جلنے سے بچ گئی البتہ اس کے بازوئوں کی کھال ادھڑ گئی اور کچھ چھینٹے بیٹی پر پڑے، جس کی وجہ سے اس کی آنکھ ضائع ہو گئی مگر ماں اور بیٹی کے چہرے بچ گئے۔ دونوں اسپتال میں داخل رہیں ۔ صبیحہ نے بیان دے کر شوہر پر ایک بار پھر پرچہ کرا دیا کہ اس نے مجھے اور بچی کو ہلاک کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔ ناصر ایک بار پھر جیل چلا گیا۔
اس بار بھی اس کا مقدمہ میرے شوہر کی عدالت میں ہی تھا ۔ ناصرکی حالت قابل رحم تھی۔ میلا کچیلا لباس اور بال پاگلوں جیسے۔ میرے شوہر نے اس کو دلاسہ دیا اور نرمی سے پیش آئے کیونکہ صبیحہ خود کہتی تھی کہ پانی کا جگ اور گلاس اُسی نے تپائی پر رکھے تھے لیکن شوہر نے جگ سے پانی نہیں دیا۔ بلکہ گلاس میں تیزاب ڈال کر اسے دیا۔ سوال یہ تھا کہ اس نے شوہر سے پانی کیوں مانگا؟ تاہم غم زدہ شوہر کی حالت بھی قابل رحم تھی۔ اسی سبب پولیس بھی اس کے ساتھ سختی سے پیش نہ آرہی تھی تا آنکہ وہ نارمل حالت میں نہ آجائے۔ اس کے ساتھ محبت بھرے رویے سے پیش آنے کی وجہ سے وہ رفتہ رفتہ نارمل ہوا۔ بہرحال مقدمہ چلا مگر عدم ثبوت کی بناپر اس بار بھی کچھ عرصہ جیل رہنے کے بعد اُسے بری کر دیا گیا اور مقدمہ خارج ہو گیا۔ اس کے بعد وہ صبیحہ کی جانب کبھی نہیں گیا۔ اس نے ایک معمولی ملازمت ڈھونڈ لی۔ بیوی نے بنگلے کا نچلا حصہ دوبارہ کرایے پر اٹھا دیا اور اس کی آمدنی سے گزر بسر کرنے لگی۔ ناصر پر حیرت ہے کہ اس نے صبیحہ کو پھر بھی طلاق نہیں دی۔ لیکن وہ اس سے ملتا بھی نہیں تھا اور نہ ہی اپنی بیٹی سے ملنے جاتا تھا۔ البتہ کبھی کبھی ہمارے گھر میرے صاحب سے ملنے آجاتا تھا ۔ اس کو ان سے عقیدت سی ہو گئی تھی۔ وہ یہی کہتا تھا نہ تو میں نے اپنا بچہ چھت سے گرایا تھا اور نہ گلاس میں تیزاب رکھا تھا بہرحال یہ معمہ حل نہ ہو سکا کہ واقعی بچہ خود گرا تھا یا اسے کسی نے گرایا تھا اور گلاس میں تیزاب کہاں سے آیا ، جب کہ جگ میں تو پانی ہی تھا۔ بعض کیسز ایسے ہوتے ہیں کہ سنگین ہونے کے باوجود چونکہ کوئی عینی شاہد نہیں ہوتا سوعدم ثبوت کے باعث ان کو خارج کر دیاجاتا ہے اور جس ملزم پر شک قوی بھی ہو تو اسے پکڑا نہیں جا سکتا اور نہ سزا دی جاتی ہے۔یہ تو ایک کیس تھا ایسے ہزاروں کیس ہوں گے کہ قاتل کو سزا نہ ملی گرچہ واقعات روز روشن کی طرح عیاں ہے مگر عدم ثبوت کا فائدہ دے کر اس کو بری کر دینا پڑا۔ تبھی کہتے ہیں کہ قانون اندھا ہوتاہے کیونکہ اس کی آنکھیں نہیں ہوتیں۔
0 Comments