درویش دو لفظوں سے مل کر بنا ہے ’’ دُ ر ‘‘ جس کا معنی ہے موتی اور ’’ ویش‘‘ جس کا معنی ہے بکھیرنا ۔ ایسی بات لکھنے والا ، بتانے والا جس سے معرفت کے سُچے موتی بکھر جائیں اور جہاں بکھریں ، وہاں صرف وہ معرفت ہی نہیں ، معرفت کا گلستان آباد ہو جائے ۔ اسے درویش کہتے ہیں ۔
بقول سلطان باہو ،
’’ دُرویش بن ، دَرپیش نہ بَن ۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ درویش کا کام ہے کہ معرفت کے موتی کو یعنی جو اس نے بکھیرنا ہے ، طالب کے دل میں مانندِ گلزار نچھاور کردے ۔
درویشی ، فقیری یہ ایک ہی چیز کے دو نام ہیں اور ان دونوں لفظوں میں سارے جہاں پوشیدہ ہیں ۔ یعنی جو درویش ہوتا ہے ، درویشی حاصل کرنے کے بعد اس کی منزل فقیری ہوتی ہے ۔ اور آگے فقراء کے بہت سارے مقامات ہیں ۔ جو صوفیائے کرام میں درجہ بندی ہے ۔
’’ فضلنا بعضھم علیٰ بعض ‘‘
کے مطابق بعض فقیر ان مقامات سے بری ہوتے ہیں ۔
یعنی عاشق فقیر کا مرتبہ سب سے اونچا ہے ۔
بقول سلطان باھو :
’’ غوث قطب رہن اُریرے ، عاشق جان اگیرے ۔ ۔ ۔ ھُو ۔‘‘
فقیر کا کلام واقعی مافوق الفطرت ہوتا ہے ۔اور فقیر کو فقیر ہی سمجھتا اور جانتا ہے ۔ سمجھنا آسان ، جاننا مشکل ہے۔سمجھنا فقط ذہن کی حد تک اور جاننا دل سے نہیں بلکہ نفس، قلب ، روح ، سِرّ ، خفی ، اور اخفیٰ روح اور سِرّ، نفس ، خفی اور اخفیٰ تک ہوتا ہے ۔
تو فقیر کو فقیر اس لئے سمجھتا ہے اور جانتا ہے کہ فقیر نفس، قلب ، روح ، سِرّ ، خفی ، اور اخفیٰ روح اور سِرّ، نفس ، خفی اور اخفیٰ سے جب تک واقف نہ ہو جائے ، تب تک وہ فقیر نہیں ہوتا ۔ اور وہی بات کہ درویش نہیں ہوتا ، دَرپیش ہوتا ہے جو در در کتّے کی مانند سرگرداں رہتا ہے ۔
بس فقراء کو پہلے مجاہدہ اس کے بعد مشاہدہ ، پھر حضوری نصیب ہوتی ہے جو کسی شیخِ کامل کی نظرِ خاص اور توجۂ خاص کے بغیر مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے۔
0 Comments