میں نفرت کے عوض ساری محبت بیچ آیا ہوں
جو پل بھر کو ملی تھوڑی مُسرت بیچ آیا ہوں
---
مجھے حق ہی نہیں یارو! کوئی ارمان رکھنے کا
سرِ بازار میں ہر ایک حسرت بیچ آیا ہوں
---
ضرورت کو ہی خواہش کر کے ساری عُمر کاٹی تھی
مگر میں آج اپنی ہر ضرورت بیچ آیا ہوں
---
خزائیں ہی خزائیں ہیں فقط، میرے مقدر میں
بہاروں سے جو رکھی تھی وہ رغبت بیچ آیا ہوں
---
کبھی اِک وقت تھا یارو! کہ میں بھی دِل سے ہنستا تھا
مگر اب ہار کر اپنی وہ فطرت بیچ آیا ہوں
---
مجھے معلوم تھا جاناں ملن ہر گز نہیں ہو گا
بہت ہی سینت کر رکھی وہ قربت بیچ آیا ہوں
---
اثر کچھ بھی نہیں ہوتا ،بھلے کچھ بھی کہو مجھ کو
کبھی ماتھے پہ پڑتی تھی وہ سَلوَٹ بیچ آیا ہوں
---
فقط اِک خواب دیکھا تھا صنم، اوقات سے بڑھ کر
صِلہ اُس خواب کا آنکھوں کی صورت بیچ آیا ہوں
---
سکوں تو چھِن گیا کب کا ،مجھے اب چین کیونکر ہو
کہ جس پہ نیند آتی تھی وہ کروٹ بیچ آیا ہوں
---
حسابِ وقت سے میرا تعلق اب نہیں کوئی
میں رسمیں توڑ آیا ہوں، روایت بیچ آیا ہوں
---
ضرورت ہی نہیں مولا ! دُعا مقبول کرنے کی
میں مذہب چھوڑ آیا ہوں، عبادت بیچ آیا ہوں
---
سبھی کچھ بیچ کر پھر گھر کو کیسے لوٹ کر آتا ؟
میں واپس لوٹ کر آنے کی عادت بیچ آیا ہوں
---
سبھی کچھ بِک گیا بس اِک مری تنہائی باقی ہے
بہت انمول ہے یہ ، اِس کی قیمت بیچ آیا ہوں
---
علیؔ بازار والوں نے عجب سودا کیا مجھ سے
وہ نفرت لے کے آئے، میں محبت بیچ آیا ہوں
💔💔💔💔
0 Comments