یہ مانتے ہیں ہم کہ گنہگار بہت ہیں
لیکن یہ گناہ ہم کو سزاوار بہت ہیں
رُک رُک کے تری یاد کیوں آتی ہے ستمگر؟
لگتا ہے تری یاد میں" اتوار" بہت ہیں
خاموشیاں بڑھتی ہی چلی جا رہی ہیں اب
لگتا ہے بچھڑ جانے کے آثار بہت ہیں
وہ دیکھئیے! وہ جارہے ہیں اجنبی کے ساتھ!
جو ہم کو کہہ رہے تھے کہ "بیمار بہت ہیں"
مجھ کو کبھی دشمن کی کمی ہو نہیں سکتی
اِس کام کو صاحب جی، مرے یار "بہت ہیں"
مولا! بس اِسی سوچ میں ہوتی رہی خطا
"اک میں ہی نہیں، مجھ سے خطا کار بہت ہیں"
بارش ، مری خاموشیاں ، تنہائیاں، آنسو
اب عشق کے ماتم کو عزادار بہت ہیں
اندر سے وہ کچھ اور ہیں ،باہر سے وہ کچھ اور
مولا! تری دنیا میں" ادا کار" بہت ہیں
میں جانتا ہوں یہ ملن مطلب کے لیے ہے
ورنہ تو تری راہ میں" بازار" بہت ہیں
اِک بار بلائیں گے تمہیں ، آ گئے تو ٹھیک!
پھر یاد رہے ، ہم بھی "طرح دار" بہت ہیں
کس کو یہاں پے کثرتِ یاراں کی طلب ہے ؟
کاندھے پہ اُٹھا لیں وہی دو چار بہت ہیں
ہم کو تو علیؔ آپ سے مل کر پتہ چلا
ہم سے بھی بڑے دُنیا میں فنکار بہت ہیں
...
0 Comments